1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم جنس پرستی کا علاج، جرمنی میں جلد پابندی؟

2 مارچ 2019

جرمنی میں ہم جنس پرستی کو کوئی مرض نہیں سمجھا جاتا، مگر پھر بھی بعض معالج ہم جنس پرستوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایسے افراد کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اب اس علاج پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3EMEo
Deutschland Regenbogenfahne vor dem Brandenburger Tor in Berlin
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger

لوکاس ہاریلیک برلن میں زیر تعلیم 26 سالہ طالب علم ہیں جنہوں نے 2018ء کے وسط میں ہم جنس پرستوں کا علاج کیے جانے کے عمل پر پابندی کے لیے ایک پٹیشن کا آغاز کیا تھا۔ اب تک اس مہم پر 80 ہزار افراد دستخط کر چکے ہیں۔ اپنی اس مہم کے تناظر میں لوکاس ہم جنس پرستوں اور ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے ہیں۔

اس پٹیشن میں جرمن حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’کنورژن تھیراپی‘ یعنی ہم جنس پرست مردوں اور خواتین کی جنسی رجحانات کے علاج پر پابندی عائد کرے۔ یہ علاج کرنے والے ڈاکٹر مریضوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہم جنس پرست نہیں اور انہیں فطری یا جنسِ مخالف کے ساتھ جنسی تعلق کو آزمانا چاہیے۔ رویے میں تبدیلی کے ان پروگراموں میں معالج اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسے افراد میں ہم جنس پرستی کے لیے منفی احساس پیدا کیا جائے۔

علاوہ ازیں ایسی کوششوں کا تانہ بانہ عام طور پر قدامت پسند ’ایونگیلیکل چرچ‘ کی طرف سے امریکا میں چلائی جانے والی ایک مہم سے جوڑا جاتا ہے جہاں سات لاکھ افراد نے اس نوعیت کے علاج کو آزمایا۔ ان میں سے نصف سے زائد تعداد بچوں یا نو عمر نوجوانوں کی تھی۔

’ہم جنس پرستی کوئی بیماری نہیں‘

ہم جنس پرست مرد اور خواتین ، دونوں جنسوں کی طرف رغبت رکھنے اور اپنی جنس تبدیل کروانے والے یعنی LGBT افراد کو جرمنی میں امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ امتیازی سلوک کے خلاف کام کرنے والی جرمن وفاقی ایجنسی کی طرف سے 2017ء میں کرائے جانے والے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ 18.3 فیصد جرمن شہری ابھی بھی ہم جنس پرستی کو ’غیر فطری‘ عمل سجھتے ہیں جبکہ 9.7 فیصد اسے ’غیر اخلاقی‘ قرار دیتے ہیں۔

Deutschland Verbot von "Homoheilung" | Jacky-Oh Weinhaus, Lucas Hawrylak und Amy Strong
گزشتہ برس اکتوبر تک لوکاس ہاریلیک (وسط میں موجود) اپنے مہم کے سلسلے میں 61 ہزار دستخط حاصل کیے تھے۔تصویر: Marisa Sann

جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن اور ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن دونوں یہ کہہ چکی ہیں کہ ’ہم جنس پرستی کوئی بیماری نہیں لہٰذا اس کے علاج کی بھی ضرورت نہیں۔‘‘

30 برس تک بطور ماہر نفسیات کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے اور جرمنی کے پیشہ ور ماہرین نفسیات کی تنظیم کے سابق نائب صدر اووے ویٹر کے مطابق کسی شخص کی جنسی رغبت کو زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش ’’اس کی شخصیت اور شناخت سے متعلق مسائل اور اس میں ڈپریشن کے ساتھ ساتھ خود کو نقصان پہنچانے تک کی وجہ بن سکتی ہے‘‘۔

گزشتہ برس جولائی میں بائیں بازو کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مطالبات کے جواب میں جرمن حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہم جنس پرستوں کا علاج کرنے والے ایسے اقدامات پر پابندی عائد نہیں کرے گی۔ اس کے جواب میں لوکاس ہاریلیک نے اپنی پٹیشن کا آغاز کیا تھا جو بہت جلد جرمنی میں ہم جنسی پرستی کے علاج معالجے کے خلاف ملک کی سب سے اہم تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔

جرمنی میں موجود ’ایل جی بی ٹی‘ افراد کی کئی دیگر تنظیمیں بھی اس مہم میں شریک ہو چکی ہیں جن میں ’ایکٹیو الائنس اگینسٹ ہوموفوبیا‘، ’اینَف از اینَف‘، ’آل آؤٹ‘ اور ’ٹراویسائٹ فیور ڈوئچ لانڈ‘  شامل ہیں۔ یہ مہم اب اپنی آواز لوگوں تک پہنچانے کے لیے روایتی طریقہ کار کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی استعمال کر رہی ہے۔

ہاریلیک کے مطابق، ’’ہم خاص طور پر بچوں اور نوعمر افراد کے ایسے علاج پر مکمل پابندی چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ ایسے علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کی تشہیر انٹرنیٹ پر کسی بھی طرح نہ کی جائے۔‘‘

سیاسی فتح

چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے صحت ژینز سپاہن بھی ہم جنس پرست ہیں۔ انہوں نے رواں برس کے آغاز میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اخبار ’تاز‘ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت رواں برس کے موسم گرما تک اس حوالے سے ایک تجویز پر متفق ہو جائے۔

سپاہن نے اس بات پر زور دیا کہ ہم جنسی پرستی کا علاج کرنے کے سلسلے کو جلد از جلد غیر قانونی قرار دیا جائے۔

جرمنی کی وزیر برائے انصاف کاتارینا بارلے کا تعلق بائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ وہ بھی سپاہن کی ان کوششوں کی حامی ہیں اور مشترکہ طور پر ایک ایسا قانون پیش کرنا چاہتی ہیں جو ہم جنس پرستوں کے علاج پر پابندی کا سبب بن سکے۔

اگر قانون سازی کی یہ کوشش کامیاب ہو جاتی ہے تو جرمنی یورپ کا دوسرا ایسا ملک ہو گا جہاں ہم جنس پرستی کے علاج پر پابندی عائد کی جائے گی۔  قبل ازیں مالٹا یوریی یونین کا واحد ایسا ملک ہے جہاں ایسے علاج پر پابندی عائد کی گئی اور اس کی سزا 10 ہزار یورو جرمانہ یا پھر ایک برس جیل کی سزا مقرر ہے۔

بھارت میں کیا اب ہم جنس پرستوں کی زندگی آسان ہو گی؟

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ع آ (مارا بیئرباخ)