1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت، آئرلینڈ میں تاریخی ریفرنڈم

عاطف توقیر17 مئی 2015

آئرلینڈ دنیا کا وہ پہلا ملک بننے جا رہا ہے، جہاں ہم جنس پرستوں کو باقاعدہ طور پر شادی کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق تاریخی ریفرنڈم ہو رہا ہے۔ کیتھولک اکثریت کے حامل اس ملک میں یہ ریفرنڈم رواں ہفتے کرایا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1FR1N
تصویر: Reuters

جمعہ 22 مئی کو منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں عوام سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ملکی دستور میں شادی کے بارے میں قانون میں یہ ترمیم کر کے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی حیثیت دے دی جائے یا نہیں۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا گیا ہے، ’’شادی قانونی طور پر دو افراد کے درمیان ان کی جنس کے فرق کے بغیر بھی ایک معاہدے کے طور پر ہو سکتی ہے۔‘‘

تازہ عوامی جائزوں کے مطابق ملک میں اس ریفرنڈم میں ہاں کو زیادہ عوامی تائید حاصل ہے۔ جب کہ حالیہ دنوں میں ہم جنس پرستوں کے حامی اور مخالفین گھر گھر مہم کے ذریعے اپنے مؤقف سے آگاہ کر رہے ہیں، جب کہ ملک بھر میں جگہ جگہ بینرز اور بل بورڈ بھی اس ریفرنڈم میں ہاں اور نہ کے حق میں اس مہم میں جتے گروہوں کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔

اسی تناظر میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے حامیوں کا ایک گروپ رنگ رنگا بس بھی چلا رہے ہیں، جو آئرلینڈ میں اس نئے ممکنہ قانون کے حوالے سے مزید عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

Wahl / Großbritannien / Nordirland / Referendum
آئرلینڈ دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جہاں اس طرح کا کوئی ریفرنڈم منعقد ہو رہا ہےتصویر: AP

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئرلینڈ کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول قدامت پرست اس قانونی تبدیلی کے حق میں ہیں۔ آئرلینڈ جیسے ملک کے لیے اس طرح سے بھی یہ غیرمعمولی بات ہے کہ سن 1993ء میں اس ملک میں ہم جنس پرستی کو جرم تصور کرنے کا خاتمہ ہوا اور یہاں اب بھی اسقاطِ حمل غیرقانونی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق اس ریفرنڈم میں ہاں کے حامی افراد میں تاہم یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ نہ کے حامی ان کی فتح کو روکنے کے لیے ووٹروں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں۔

اسی تناظر میں وزیراعظم اینڈا کینی نے کہا، ’’ہم یقینی بنائیں گے کہ عوام کو مساوی انداز میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملے، اس بات سے بالاتر ہو کر کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ آئرلینڈ میں کیتھولک کلیسا اس ریفرنڈم کا سخت مخالف ہے، تاہم ماضی میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات منظرِ عام پر آنے کے بعد کلیسیا کے اثرورسوخ میں غیرمعمولی کمی دیکھی گئی ہے۔

آئرش کیتھولک بشپس کانفرنس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’شادی ایک مرد اور عورت کے درمیان خوبصورت اور یگانہ رشتہ رہنا چاہیے، جس سے نسلوں کی بقا اور بچوں کی نگہداشت ممکن ہوتی ہے۔‘‘

ہفتہ 16 مئی کو آئرش ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک عوامی جائزے میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں ستر فیصد عوام ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت دینے جب کہ صرف تیس فیصد عوام اس کے مخالف ہیں۔ مارچ میں ہونے والے عوامی جائزے میں 78 فیصد عوام اس قانونی تبدیلی کے حق میں تھے۔ اے ایف پی کے مطابق معمر افراد اور دیہی علاقوں کے باشندے اس قانون کی مخالفت کرتے آ رہے ہیں، جب کہ نوجوان اور شہری علاقے کے رہائشی اس قانون کے حق میں ہیں۔