1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم ایک دن میں تقریباﹰ پینتیس ہزار فیصلے بھلا کیسے کرتے ہیں؟

7 جنوری 2020

چھوٹی چھوٹی تدبیریں ہماری زندگی کے فیصلوں پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں؟ ہم ہر روز کئی فیصلے کرتے ہیں، کچھ مشکل اور اہم فیصلے اور کچھ غیر اہم، جن پر ہم توجہ تک نہیں دیتے اور یہ سبھی فیصلے ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Vr8h
Speiseeis in Deutschland
تصویر: picture-alliance/Mc Photo

ہمیں صبح جاگتے ہی فیصلوں کی اس دوڑ میں کودنا پڑتا ہے۔ بستر پر تھوڑی دیر مزید لیٹا جائے یا نہیں، آج کافی پی جائے یا چائے؟ نہیں، کیا حماقت ہے؟ کافی ہی پینا چاہیے۔ کیا پہلے باتھ روم جایا جائے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ آج موسم کیسا ہو گا؟ بارش تو نہیں ہو گی؟ چھتری لے کر گھر سے نکلا جائے یا اس کے بغیر؟ سفر کے لیے ریل گاڑی یا بائیسکل؟ یہ سب اور اس طرح کے بےشمار دوسرے فیصلے ہوتے ہیں، جو ہم میں سے ہر کوئی روز کرتا ہے۔

ہم ایک دن میں تقریباﹰ پینتیس ہزار فیصلے کرتے ہیں۔ یہ کہنا ہے کیمبرج یونیورسٹی میں کلینیکل نیوروسائنس کی پروفیسر باربرا سہاکیان کا۔  انہوں نے سان ڈیاگو یونیورسٹی کی جیمی نکول کے ساتھ مل کو اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دن میں کیے جانے والے فیصلوں کی صحیح تعداد بیس ہزار سے کم ہو، لیکن یہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس حتمی تعداد کا درست تعین بہت مشکل ہے۔ ہم کیا کھائیں؟ اس کے لیے بھی ہم دن میں کم ا زکم 200 فیصلے کرتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ان میں سے بیشتر فیصلے غیر ارادی ہوتے ہیں۔ ورنہ تو زندگی ہمارے لیے مصیبت ہی بن جائے۔ بعض اوقات ہم آئس کریم خریدنے کے لیے کسی دکان پر جاتے ہیں، تو کھڑے ہو کر رنگ برنگ ذائقوں کے بارے میں سوچتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن کئی دوسرے لوگ یہی فیصلہ ایک لمحے میں کر لیتے ہیں: ’’مجھے تو صرف ونیلا آئس کریم ہی چاہیے۔‘‘ آخرکار آئس کریم کھا کر ہر کسی کو خوشی تو ایک سی ہی ملتی ہے۔ بس فیصلہ کسی نے جلد کیا اور کسی نے بہت دیر سے۔

لیکن ایسا کیوں ہے؟ کیوں ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ بغیر کسی دشواری کے ہر طرح کے فیصلے کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے تو بس سوچ میں ہی پڑ جاتے ہیں۔ اس بارے میں برطانیہ کی لیسٹر یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر اور فیصلہ سازی کے شعبے کی ایک محققہ ڈاکٹر ایوا کروکو کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر فیصلے کرنا آسان نہیں، چاہے وہ کسی بھی قسم کے ہوں۔ مگر ہماری شخصیت کے مختلف پہلو بھی ہماری فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جو لوگ ہر کام انتہائی احسن طریقے سے کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنافیصلہ کرتے ہوئے پہلے ہر طریقہ آزمانا چاہتے ہیں، حتیٰ کہ آخری فیصلے سے قبل انہیں پچاس طرح کی آئس کریم چکھنا بھی اچھا ہی لگتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں فیصلے کرتے کیسے ہیں؟ اس کے لیے ایک باقاعدہ تحقیقی شعبہ بھی ہے۔ علمی  اصطلاح میں اسے ہیورسٹک کہا جاتا ہے جو قدیم یونانی زبان کا ایک لفظ ہے اور جس کا مطلب ہے تلاش کرنا۔ ڈاکٹر کروکو کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے فیصلے کرتے ہوئے اعلٰی ترین معیار کا انتخاب کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پرکسی جگہ قیام کرنے کے لیے اس جگہ کا انتخاب ہیورسٹک ہو، تو اس کی انتہائی مثبت درجہ بندی ملحوظ رکھی جائے گی۔ فیصلہ کرتے ہوئے جبلت کو بھی آزمایا جا سکتا ہے، جسے انگریزی میں  ’گٹ فیلِنگ‘ کہتے ہیں۔ لیکن اہم فیصلے کرتے ہوئے صرف جبلت پر ہی انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ دوپہر کو بھوک لگنے پر کیفے ٹیریا جاتے ہیں اور اکثر اس چیز کو منتخب کر لیتے ہیں، جو آپ کو پہلے نظر آ جائے۔ ڈاکٹر ایوا کروکو کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ کھانےکے لیے پھل اٹھا لیتے ہیں، اگر وہ انہیں سامنے ہی رکھے ہوئے نظر آ جائیں۔ اسی طرح جب مٹھائیاں کیش کاؤنٹر کے پاس ہی رکھی ہوں، تو عام صارفین انہیں خرید ہی لیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے پاس انتخاب کی مکمل آزادی تو ہوتی ہے مگر وہ اپنے ارد گرد کے حقائق سے اثر بھی ضرور لیتے ہیں۔

ع ش / م م