1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’ہم آزاد ہو گئے‘‘ فرانسیسی صحافیوں کا سماجی ویب سائٹس پر اوّلین پیغام

عدنان اسحاق20 اپریل 2014

شام میں گزشتہ برس اغوا کیے جانے والے چار فرانسیسی صحافیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے بقول یہ چاروں آج 20 اپریل کو وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BlCX
تصویر: Reuters

فرانسیسی صحافیوں نکولس ہینن، پیئر توریس، دیدیئر فرانسوا اور ایدوآرد ایلیس ترک فوج کو شامی سرحد کے قریب سان لی عُرفا صوبے میں ایک سنسان علاقے سے ملے۔ ترک خبر رساں ادارے دوگان کے مطابق ان چاروں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آنکھوں پر پٹیاں لپٹی ہوئی تھیں۔ ترک ٹیلی وژن پر نشر کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان چاروں کے بال اور داڑھی بڑھی ہوئی تھیں۔ اس موقع پر 53 سالہ صحافی فرانسوا نے کہا کہ وہ آزاد ہونے پر بہت خوش ہیں۔ ’’ہم ترک حکام کے بہت شکر گزار ہیں کیونکہ انہوں نے حقیقت میں ہماری بہت مدد کی ہے۔ آسمان کو دیکھنا اور آزادی سے بات چیت کرنا اور چلنا پھرنا بہت اچھا لگ رہا ہے‘‘۔

فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے چاروں صحافیوں کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’’ انہیں انتہائی مشکل حالات کا سامنا رہا لیکن اس کے باوجود وہ بالکل صحت مند ہیں‘‘۔ اولانڈ کے بقول یہ واقعہ ان پر ایک بہت بڑا بوجھ بنا ہوا تھا۔ ’’ اِن کے گھر والوں اور قوم کو،جو خوشی حاصل ہوئی ہے وہ میرے لیے بھی باعث مسرت ہے‘‘۔ فرانسیسی صدر نے مزید بتایا کہ آج اتوار 20 اپریل کے یہ چاروں ترکی سے پیرس کے نواح میں ایک فوجی اڈے پر پہنچیں گے۔

Französische Journalisten aus syrischer Geiselhaft freigelassen ARCHIV
تصویر: picture-alliance/AP Photo

ان چاروں فرانسیسی صحافیوں کو گزشتہ برس جون میں دو مختلف واقعات میں اغوا کیا گیا تھا۔ فرانسوا کا شمار فرانس کے مشہور ترین صحافیوں میں ہوتا ہے اور وہ ریڈیو 1 کے لیے کام کرتے ہیں۔ 23 سالہ ایلیس فوٹوگرافر ہیں۔ ان دونوں کو شمالی شام کے شہر حمص میں 6 جون کو اغوا کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پوائنٹ میگزین کے 37 سالہ رپورٹر ہینن اور 29 سالہ فری لانس فوٹوگرافر توریس سے اس واقعے کے دو ہفتوں بعد رابطہ منقطع ہو گیا تھا ۔ اُس وقت یہ لوگ الرقہ میں تھے۔

ان چاروں کے رہائی ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہے، جب ابھی دو ہفتے قبل ہی شام میں القاعدہ سے منسلک ایک گروپ نے دو ہسپانوی صحافیوں کو رہا کیا تھا۔ ایل مُوندو کے 49 سالہ رپورٹر خاویر ایسپینوزا اور 42 سالہ فری لانس فوٹو گرافر ریکارڈو گارسیا کو مارچ میں ترک حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ دونوں گزشتہ برس ستمبر سے لاپتہ تھے۔

مارچ 2011ء میں شامی تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک تیس سے زائد غیر ملکی صحافیوں کو اغوا کیا جا چکا ہے اور ان میں کئی تو ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ان میں گلوبل پوسٹ، اے پی اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والے امریکی صحافی جیمز فولے بھی شامل ہیں۔ انہیں نومبر 2012 میں اغوا کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آسٹن ٹائس بھی اگست 2012ء سے لاپتہ ہیں۔ اسی ہفتے بدھ کے روز نیو یارک میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں شام کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔ تین سال سے جاری اس تنازعے کے دوران تقریباً ساٹھ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔