1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہسپانوی مہاجرین مراکز کی حالت ’جیل سے بھی بری‘

عاطف توقیر سینتیاگو سائس، میڈرڈ
11 دسمبر 2017

افریقہ سے غیرقانونی طور پر اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کو سینٹر فار دی انٹرمینٹ آف فارنرز (CIE) میں رکھا جاتا ہے، جہاں متعدد صورتوں میں بنیادی انسانی حقوق کا خیال تک نہیں رکھا جاتا۔

https://p.dw.com/p/2p8ws
Afrikanische Migranten in Spanien
تصویر: AFP/Getty Images

زیمبیا سے سن 2002ء میں فقط 12 برس کی عمر میں نقل مکانی کرنے والا الہاگی یرو گائی، جو اب یورو کے نام سے پکارا جاتا ہے، چھ سال بعد موریطانیہ کی ایک بندرگاہ پر اسمگلروں کو ایک ہزار یورو ادا کرنے پر اسے ایک کشتی پر جگہ ملی اور وہ پانچ روز تک سمندر کی موجوں کا مقابلہ کرتے اور اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر سن 2009ء میں ہسپانوی جزیرے تینیریفا پہنچا۔

ليبيا سے مہاجرين کی ملک بدری کے عمل ميں تيزی متوقع

’چُوکا، ہميں وقت بتا دے‘ بھلا دیے گئے مہاجرین پر ایک فلم

آسٹريليا نے مہاجرين کے معاملے پر وعدہ خلافی کی، اقوام متحدہ

مگر اس کا بھیانک خواب ابھی اپنے خاتمے سے بہت دور تھا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اصل خوف ناک سفر شروع ہی اب ہوا تھا۔ اسے تینیریفا پہنچنے پر پانچ روز بعد ایک اور جزیرے پر واقع فورینتوینتورا کے حراستی مرکز پہنچا دیا گیا، جہاں اسے اگلا ایک ماہ گزارنا تھا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس مہاجر کا کہنا تھا، ’’وہ پینتیس روز ایک مسلسل خوف، تکلیف اور آزادی اور معلومات سے دوری آج تک ایک دکھ کی طرح میرے ساتھ ہیں۔ وہ ایک ایسا موقع تھا جب فقط اندھیرا تھا اور کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔‘‘ یورو اب میڈرڈ میں ایک اطالوی ریستوران میں باورچی کے بہ طور کام کرتا ہے۔

فورینتوینتورا کا حراستی مرکز اب بند کیا جا چکا ہے مگر اسپین میں اس طرح کے متعدد حراستی مراکز اب بھی کام کر رہے ہیں۔ ان حراستی مراکز میں قریب 15 سو تارکین وطن رکھنے کی گنجائش ہے اور یہاں ان مہاجرین کو لایا جاتا ہے، جن کے پاس دستایزات نہیں ہوتے اور جنہیں ان کے آبائی ممالک بھیجنا ہوتا ہے۔

غیر ملکیوں کو ہسپانوی قانون کے مطابق ایسے مراکز میں ساٹھ روز تک رکھا جا سکتا ہے اور اس دوران یہ طے کیا جاتا ہے کہ انہیں رہا کر دیا جائے یا انہیں ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔

حراستی مراکز میں تشدد

اکتوبر میں میڈرڈ میں قائم ایسے ہی ایک حراستی مرکز میں وقت گزارنے والے ایک شخص نے درخواست دی تھی، جس میں اس نے اسپین کی قومی پولیس کے اہلکاروں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ تارکین وطن پر تشدد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس تارک وطن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا تاہم ایک غیرسرکاری تنظیم ایس او ایس ریسیسمو میڈرڈ نے بتایا تھا کہ اسے اس حراستی مرکز میں غلط الفاظ سے پکارا اور دھمکایا جاتا تھا۔ جب کہ پانچ پولیس اہلکاروں نے اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔‘‘

یونان میں موجود پاکستانی مہاجرین کو کیا معلوم ہونا چاہیے؟

اس شکایت کے بعد غیر سرکاری تنظیم کے کارکنان نے اس حراستی مرکز کا دورہ کیا تھا اور اس مہاجر سے ملاقات کی تھی۔ ان کارکنان نے شکایت کنندہ مہاجر کے آنکھوں اور جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے نشانات دیکھے تھے۔

اس تنظیم کے مطابق اس مہاجر نے شکایت کی تھی، ’’اسے 22 گھنٹوں تک قید تنہائی میں بغیر کسی طبی امداد کے رکھا گیا۔‘‘ اس تنظیم کے مطابق یہ واقعات ان حراستی مراکز میں عمومی ہیں۔