1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہر رنگ اور ہر طرح کی لڑکیاں دستیاب‘

5 اپریل 2018

بھارت میں ایک جعلی ویب سائٹ نے لڑکیوں کی غیر قانوی اسمگلنگ کے مسئلے کو اجاگر کر نے کے لیے، لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی ’جھوٹی‘سروس کا آغاز کیا، پہلے دن ہی ایک ہزار افراد اس ویب سائٹ کے رکن بن گئے۔

https://p.dw.com/p/2vXLh
Sony World Photography Awards 2017
تصویر: Sony World Photography Awards/S. Hoyn

’سٹے انکل‘ ایک ایسی بھارتی ویب سائٹ ہے جو غیر شادی شدہ افراد کو ہوٹلوں کے کمرے بک کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مالک نے اپنے گاہکوں کی جانب سے ’سیکس ورکرز‘  مانگنے کی بے انتہا درخواستیں موصول ہونے کے بعد ایک جعلی ویب سائٹ ’سٹے لیڈ‘ staylaid.com کا آغاز کیا۔ سٹے انکل کے سربراہ سنچیت سیٹھی نے نیوز ایجنسی تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’ہمیں ہر ماہ جنسی پارٹنر اور  کمرے کی تین ہزار درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔‘‘ اس جعلی ویب سائٹ کے ذریعے سیٹھی لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ بھارت میں لڑکیوں اور عورتوں کی اسمگلنگ کتنا سنگین مسئلہ ہے۔

سیٹھی کا کہنا ہے، ’’ہم لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ انسانی اسمگلنگ سے کیسے زندگیاں تباہ ہوتی ہیں اور ہمیں لگا کہ ایسا ایک جعلی ویب سائٹ کے ذریعے کیاجائے۔‘‘ ہوٹل اور کچھ عرصے کے لیے گھر فراہم کرنے والی سروس ’ایئر بی اینڈ بی‘ نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کرنے کے لیے کچھ اقدامات لیے ہیں تاکہ ان مجبور عورتوں کے استحصال کو روکا جائے جو دھوکہ دہی کے ذریعے انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں قحبہ خانوں میں فروخت کر دی جاتی ہیں۔

Prostitution in Bangladesh
2016ء میں بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے آٹھ ہزار کیسز رجسٹر کیے گئے تھے جو 2015ء کے مقابلے میں بیس فیصد زائد تھےتصویر: picture-alliance/ZUMA Press/M. Candela

2016ء میں بھارت میں انسانی اسمگلنگ کے آٹھ ہزار کیسز رجسٹر کیے گئے تھے جو 2015ء کے مقابلے میں بیس فیصد زائد تھے۔ اس جعلی ویب سائٹ نے لگ بھگ درجن لڑکیوں کی تفصیلات اس ویب سائٹ پر شائع کی تھیں اور ان تصاویر کے ساتھ لکھا گیا تھا کہ ان لڑکیوں تک پہنچ بہت ہی آسان ہے۔ ویب سائٹ کا رکن بننے والے اراکین کو فوری طور پر ایک ای میل بھیجی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ انسانی اسمگلنگ کتنا بڑا مسئلہ ہے اور کیسے ہر سال بھارت کی ہزاروں لڑکیوں کو کبھی نوکری دینے کا دلاسہ دے کر یا کسی اور بہانے سے شہروں میں لا کر قحبہ خانوں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اور کیسے یہ لڑکیاں ساری عمر مجبوری کی زندگی گزارنے پر مجبور رہتی ہیں۔

تاہم ایک غیر سرکاری تنظیم سے منسلک حسینہ خربیح کا کہنا ہے کہ سٹے انکل کمپنی کو انسانی اسمگلنگ کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

ب ج/ اا، تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن