ہبل دوربین کے بہترین امیجز پر ایک نظر
گزشتہ تیس برسوں سے ہبل ٹیلی اسکوپ کے ذریعے خلا کے حیران کن مناظر اور تصاویر دیکھنے کو دستیاب ہوئی ہیں۔ کائنات کے دوردراز کے کونوں سے بھی امیجز حاصل ہوئے ہیں۔ چند بہترین تصویر دیکھتے ہیں:
کمپیوٹر کا مسئلہ حل ہو گیا
ناسا کو ہبل ٹیلی اسکوپ سے تیرہ جون سن 2021 سے پندرہ جولائی تک امیجز موصول ہونا بند ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ ناسا میں نصب کمپیوٹر کی میموری کے سسٹم میں نقص کا پیدا ہونا بتایا گیا۔ جب یہ نقص دور نہ ہوا تو بعض ریٹائرڈ ماہرین کو طلب کیا گیا اور انہوں نے اس نقص کو دور کیا۔ امیجز پھر موصول ہونا شروع ہو گئے۔ تین دہائیوں سے ہبل دوربین نے خلا کے ستاروں اور کہکشاؤں کی حیران کن اور شاندار تصاویر فراہم کی ہیں۔
ستارے جنم لے رہے ہیں
اس تصویر میں ہبل دوربین نےستاروں کی نرسری کو محفوظ بنایا ہے۔ سن 2014 میں انتہائی بڑے نیبولا اور اس کے قریب ایک اور ستارے کے درمیان وسیع ستاروں کا جھرمٹ بادل جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار نوری سال کی دوری پر ہے۔ ایک نوری سال سے مراد ایک سال میں روشی اپنی رفتار سے جتنا سفر کرتی ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔
اسٹار وارز سے بہتر
سن 2015 میں اسٹار وار فلم کا نیا حصہ ریلیز کیا گیا تھا۔ ہبل کی یہ تصویر بھی اسی سال کی ہے۔ اس میں بھی ستارے مدمقابل ہیں۔ اس تصویر میں ایک آسمانی اسٹرکچر تیرہ سو نوری سال کی مسافت پر دکھائی دے رہا ہے، جو ایک نئے اسٹار سسٹم کی افزائش سے نتھی کیا گیا ہے۔ یہ ایک ناقابل بیان تصویر قرار دی گئی تھی۔
خلا میں آنکھیں
سن 1990 میں ہبل ٹیلی اسکوپ کو زمین کے مدار میں چھوڑا گیا تھا۔ یہ تمام دوربینوں کی ملکہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ زمینی مدار میں ستائیس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے۔ یہ زمین سے تین سو چالیس کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ ہبل کی لمبائی گیارہ میٹر اور وزن گیارہ ٹن ہے یعنی ایک اسکول بس جتنا وزن۔ اسے ’خلا میں آنکھ‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
کائناتی بلبلے
ہبل نے انسانوں کو ستاروں کی پیدائش اور سیاروں کی معلومات اور سوجھ بُوجھ فراہم کی ہے۔ اس کے ذریعے کائنات کی عمر اور وہاں کے بلیک میٹرز کی آگہی بھی ملی۔ اس تصویر میں گیس کا ایک بڑا گولہ دیکھا جا سکتا ہے جو شاید دو ستاروں کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والے سپرنووا دھماکے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
عارضی تیرتے رنگ
خلا میں مختلف گیسیں مختلف رنگ چھوڑتی ہیں۔ سرخ رنگ کی گیس سلفر سے نکلتی ہے تو سبز رنگ کی گیس کا تعلق آکسیجن سے ہے۔ نیلے رنگ کی گیس بھی آکسیجن کی ہو سکتی ہے۔
ہبل کو چشمے کی ضرورت
سن 1993 میں امریکی خلائی شٹل اینڈیور ماہرین کو لے کر ہبل ٹیلی اسکوپ تک گئی تھی۔ ان ماہرین نے وہاں پہنچ کر دوربین کے شیشے کی مرمت کی اور اس دوران اس کے عدسوں پر ایک عینک بھی چڑھائی تا کہ اس کے دیکھنے کی صلاحیت مزید بہتر ہو سکے۔ اب تک اس دوربین کی پانچ مرتبہ مرمت کی جا چکی ہے۔ آخری مرتبہ مرمت سن 2009 میں کی گئی تھی۔
خلائی کنڈرگارٹن
دسمبر سن 2009 میں ہبل نے ایک حیران کن امیج روانہ کیا۔ اس تصویر میں نیلے نشانات چھوٹے چھوٹے ستارے ہیں، جو ابھی نوزائیدہ ہیں۔ ان میں سے بعض ستاروں کی عمر چند ملین سال ہے۔ ستاروں کا یہ بڑا جھرمٹ ایک قریبی کہکشاں میں واقع ہے اور ہماری کہکشاں ملکی وے کا ایک سیٹلائٹ بھی ہے۔
تتلی ہے یہ؟
یہ تصویر بھی خلا سے ہبل نے کھینچی ہے۔ کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہبل نے یہ کیسے بنائی ہے یا اس سے مراد کیا ہے لیکن یہ بھی ایک انتہائی شاندار تصویر ہے۔ ہبل دوربین اب تک ہزاروں تصویریں ارسال کر چکی ہے۔
آفاقی سومبریرو
یہ تصویر کئی تصاویر کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ اس میں سومبریرو کہکشاں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کہکشاں بل کھاتی ہوئی ہے۔ اس کہکشاں نے انسانی دماغ کو بگ بینگ کے تصور کو بھی سمجھنے میں مدد دی ہے۔
ایڈون پاول ہبل
ایڈون پاول ہبل دنیا کی سب سے بڑی دوربین امریکی فلکیاتی سائنسدان ایڈون پاول ہبل (1889-1953) کے نام سے معنون ہے۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے اس کی تصدیق کی تھی کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور انہوں نے ہی کائنات کی تخلیق سے جڑے بگ بینگ کے نظریے کا فہم بھی دیا۔
تخلیق کے ستون
زمین سے سات ہزار نوری سال کی دوری پر یہ ستون حقیقت میں ایگل نیبولا ہے۔ ہبل کی اس تصویر کو ’کائنات کے ستون‘ کا نام دیا گیا تھا۔
ایک نیا دور
ہبل زوردار انداز میں کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا امکان ہے کہ ہبل واپس زمین پر سن 2024 میں لائی جائے گی۔ اس کی جگہ لینے والی متبادل دوربین جیمز ویب تیار ہو چکی ہے۔ اس کی آزمائش جاری ہے۔ امکان ہے کہ جیمز ویب رواں برس کسی وقت خلا میں نصب کر دی جائے گی۔ اس کے کام کا مقام زمین سے ڈیڑھ ملین کلومیٹر دور ہو گا۔
اسپیس اسمائلی
یہ تصویر بھی ہبل دوربین کی تخلیق ہے، ایک اسپیس اسمائلی۔ یہ روشنی کے ایک دھارے میں پیدا خم تھا، جس نے اسمائلی کا روپ دھارا اور ہبل ٹیلی اسکوپ نے محفوظ کر لیا۔