ہامباخ کے جنگلات کا منفرد احتجاجی کیمپ ختم
ہامباخ کوئلے کی کان کنی کے حوالے سے یورپ کا وسیع ترین علاقہ ہے۔ یہ علاقہ تحفظ ماحول کی کوششوں کے حوالے سے ایک علامت بھی بن چکا ہے۔ پولیس نے یہاں درختوں پر احتجاجاً رہائش پذیر تمام مظاہرین سے یہ علاقہ کا خالی کرا لیا گیا۔
معاملہ سنجیدہ ہے
گرشتہ جمعرات کو ایک طویل سوچ و بچار کے بعد پولیس نے ہامباخ کے جنگلات میں تحفظ ماحول کے کارکنوں کے درختوں پر بنے گھروں کو ہٹانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان میں کچھ کارکنوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ زیادہ تر مظاہرین اس موقع پر پر امن رہے۔ پولیس کے مطابق آتشزدگی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی ہے
درختوں پر گھر
گرشتہ چھ برسوں سے ہامباخ کے جنگل میں ایک سو سے دو سو نوجوان درختوں پر بنائے گئے گھروں میں رہ رہے تھے۔ یہاں پر درختوں پر بننے گھروں کے کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں تشکیل پا چکے تھے۔ ماحول دوست کارکن کوئلے کی کان کنی کی خاطر جنگلات کو ختم کرنے کے شدید مخالف کرتے ہوئے اس جنگل کو بچانا چاہتے تھے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں توانائی حاصل کرنے کے لیے کوئلے کا استعمال ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔
آسمان سے بھی کوئی مدد نہیں
بدھ کے دن ہامباخ کے جنگلات میں ایک دعائیہ تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر مظاہرین نے پولینڈ کے شہرکاتوویتزے تک کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس شہر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر رواں برس دسمبر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو گی۔ تاہم دعائیہ تقریب بھی احتجاجی کیمپ کے خاتمے کو روک نہیں سکیں۔
کوئلے کی صنعت اور تحفظ ماحول
یہ احتجاج کیا ہی اس لیے جا رہا تھا کہ کوئلے کی کان کنی کی وجہ سے جنگلات کو ختم نہ کیا جائے۔ توانائی فراہم کرنے والی کمپنی ( آر ڈبلیو ای) ہامباخ کے جنگلات کا بچا کچا حصہ بھی اپنے مقاصد کے لیے ملیہ میٹ کرنا چاہتی ہے۔ ان جنگلات کا نوے فیصد حصہ پہلے ہی کان کنی کی وجہ سے برباد کیا جا چکا ہے۔
درخواست بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی
جنگل ختم کرنے کے ’آر ڈبلیو ای‘ کے ارادے نے کوئلے کی کان کنی کے مخالفین اور ماحول دوستوں کو متحرک کر دیا تھا۔ تحفظ ماحول کی تنظیموں، قریبی دیہاتوں کے رہائشیوں اور سیاستدانوں نے ’آر ڈبلیو ای‘ کمپنی نے درخواست کی تھی کہ وہ جنگل صاف کرنے کا ارادہ روں برس دسمبر تک ترک کر دےکیونکہ اس سال ایک حکومتی کمیشن کوئلے سے توانائی کے حصول سے دستبرداری کے حق میں یا اس کے مخالف فیصلہ کرے گا۔
جنگل میں چہل قدمی
ماہر جنگلات مشائیل سوبیل ہامباخ میں دلچسپی رکھنے والے شہریوں کو ہر اتوار کو اس جنگل میں چہل قدمی کرواتے تھے۔ اس جنگل کے اس بچے کچے حصے میں شاہ بلوط کے شاخ دار اور کارپینس کے تیس سو سال پرانے درخت بھی ہیں۔ یہاں پر ایسی کئی اقسام کے درخت بھی ہیں، جو ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
مظاہرے پر تشدد تھے؟
پولیس نے گزشتہ ہفتوں کے دوران بتایا کہ مظاہرین کی جانب سے ان پر پتھراؤ کیا گیا اور شارٹ گن سے فائر بھی کیے گئے۔ تاہم جنگل کے زیادہ تر رہائشی امن پسند ہیں جیسا کہ اس تصویر میں آگ بجھانے والے آلہ ہاتھوں میں لیے دو سرگرم کارکنوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس نے حفاظتی اقدامات کے تحت آگ بجھانے والے آلات کو بھی بم سمجھتے ہوئے ضائع کر دیا ہے۔
اب کیا ہو گا؟
اگست میں کوئلے کی کان کنی کے ماہر ڈرک یانزن نے کوئلے کے کمیشن کے ارکان کو ہامباخ جنگلات کی صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔ اس موقع پر آر ڈبلیو ای نے ایک انتظامی عدالت کو بتایا تھا کہ وہ جنگل کو ختم کرنے کے سلسلے میں وقفہ کرنے پر رضامند ہے۔ تاہم اس کمپنی نے کہا ہے کہ وہ چودہ اکتوبر سے زیادہ انتظار نہیں کر سکتی۔