ہالینڈ: طالبات کو جبری شادیوں سے بچانے کے اقدامات
22 مئی 2009اس منصوبے کے تحت روٹرڈیم کے سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیوں سے قبل طالبات کو یہ پیشکش کی جایا کرے گی کہ اگر وہ چاہیں تو چھٹیوں کے بعد ان کے واپس سکول نہ لوٹنے کی صورت میں سکول کی انتظامیہ پولیس کو اطلاع کر سکے گی۔
روٹرڈیم کی شہری انتظامیہ کے ترجمان بیرٹ بریہم کے مطابق والدین کے دباؤ کے نتیجے میں زبردستی کی شادی ایک قابل مذمت اقدام ہے اور ڈچ پولیس ان ممالک کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرے گی، جہاں یورپ سے جانے والی لڑکیوں کی زبردستی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔
اس کا مقصد یہ ہو گا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو مستقل طور پر ہالینڈ میں رہائش پذیر ایسی لڑکیوں کو واپس ہالینڈ لانے کا انتظام کیا جا سکے۔
بیرٹ بریہم کے مطابق ان کے پاس ایسے واقعات کی کوئی مصدقہ تعداد تو نہیں ہے لیکن قومی سطح پر لگائے گئے اندازے کے مطابق صرف روٹرڈیم ہی میں ہر سال درجنوں مراکشی،ترک اور پاکستانی لڑکیوں کو سکول چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ایسی سینکڑوں لڑکیاں جبری شادی کے بعد واپس سکول نہیں جاتیں کیونکہ انہیں اس کی اجازت نہیں ملتی۔
روٹرڈیم میں سماجی شعبے کی ایک سرکاری اہلکار ژانتین کرینز کا کہنا ہے کہ طالبات کے جبری شادی کے امکان سے متعلق ایسے دستخط شدہ بیانات سے برطانیہ میں زبردستی کی شادیوں کو روکنے میں کافی مدد ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ روٹرڈیم کی انتظامیہ ایسی جبری شادیوں کے خلاف ایک باقاعدہ تحریک بھی چلائے گی، جس میں نوجوان لڑکیوں کو زبردستی کی شادی کے پرُخطرنتائج سے آگاہ کیا جائے گا۔
اس مقصد کے لئے ایسے سرکاری اقدامات میں روٹرڈیم کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں گے، جس کے لئے اُنہیں خصوصی تربیت دی جائے گی۔ روٹرڈیم میں اگر یہ منصوبہ کامیاب رہا تو ہالینڈ میں قومی سطح پر بھی ایسے ہی پروگرام شروع کئے جا سکتے ہیں۔