1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیند تو امریکا کی کورٹ میں ہے: چین

11 جون 2020

چین نے امریکا اور روس کے درمیان جوہری اسلحوں کی تخفیف پر ہونے والی بات چيت میں یہ کہہ کر شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے کہ امریکا اسے اس میں بلا وجہ گھسیٹ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3dcOq
Syrien Sergei Ryabkov stellvertretender russischer Außenminister in Damaskus
تصویر: Getty Images/AFP/L. Beshara

امریکا اور روس کے درمیان جوہری اسلحے کی تخفیف پر مذاکرات کا انعقاد 22 جون کو ویانا میں طے ہے۔ امریکا چین پر بھی زور دیتا رہا ہے کہ وہ بھی اس میں شامل ہو تاہم چین کا کہنا ہے کہ اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا اسے اس میں بلا وجہ گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کےترجمان ہوا چاؤننگ کا کہنا تھا، "ہم نے غور کیا ہے کہ جہاں کہیں بھی یہ مسئلہ اٹھتا ہے، امریکا چین کو اس میں گھسیٹنے لگتا ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن اس بارے میں جو یہ بات کہتا رہتا ہے کہ وہ نیک نیتی سے اس پر  چین سے گفت و شنید چاہتا ہے، وہ تو "انتہائی مضحکہ خیز اور غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے۔"

ویانا میں ہونے والی بات چيت میں امریکا کی نمائندگی مارشل بلینگزیہ کریں گے جبکہ روس کی نمائندگی نائب وزير خارجہ سرگئی ریابکوف کریں گے۔  حالیہ برسوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سرد جنگ کے دوران  کے 'انٹرمیڈیٹ رینج جوہری قوتوں کے معاہدے' سمیت کئی معاہدوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ ماہ ہی انہوں نے 'اوپن اسکائی معاہدے' سے بھی دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

Russland Pressekonferenz zur Vorstellung neuer Raketen
2019 ء تک امریکا اور روس کے پاس چھ ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ تھا۔تصویر: Imago/ITAR-TASS/S. Bobylev

ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف میں بات چیت کے لیے روس اور امریکا  کے ساتھ ساتھ چین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ چین اس طرح کی پیش رفت کا نوٹس لیتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکا بیجنگ کو اس میں گھسیٹ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی  سرگئی ریابکوف کا کہنا ہے کہ جب تک امریکا ہتھیاروں کے کنٹرول کے تعلق سے روس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز نہیں کرتا اس وقت تک اس طرح کی میٹنگ میں چین کی شمولیت کیسے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے چین کو اس پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے اور پھر اگر اتفاق ہو جائے تو مستقبل میں امریکا کے اتحادی برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ "گیند تو امریکا کے پاس ہے۔"

امریکی سفیر مارشل بلنگزیہ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کو صرف دکھاوے کے معاہدے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا، اس کے اتحادیوں اور اس کے دوستوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے، چین خفیہ طور پر اپنے جوہری اسلحوں میں اضافہ کر رہا ہے اور وہ اس بارے میں خاموش ہے۔

Symbolbild Nukleare Abrüstung
متعدد یورپی ممالک میں دنیا کو اسلحے سے پاک کرنے کے لیے آئے دن مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/S. de Sakutin

واشنگٹن میں ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق ادارے 'آرمس کنٹرول ایسوسی ایشن' کے مطابق سن 2019 تک امریکا اور روس کے پاس چھ ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ تھا۔ اس کے مطابق چین کے پاس 290، فرانس کے  پاس 300 اور برطانیہ کے پاس 200 جوہری اسلحے موجود تھے۔ اس کے علاوہ بھارت اسرائیل، شمالی کوریا  اور پاکستان کے پاس بھی جوہری ہتھیاروں کا اچھا خاصہ ذخیرہ موجود ہے۔

ص ز/ ک م (ایجنسیاں)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں