1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گھریلو تشدد اور ہمارا دوہرا معیار

28 جولائی 2019

پاکستان میں خواتین بڑی تعداد میں گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ لیکن جب کوئی معروف خاتون یا معروف ہستی سے وابستہ کسی خاتون کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آتا ہے تو ہی ہر طرف ہلچل کیوں مچتی ہے؟ عنبرین فاطمہ کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3Mr4N
عنبرین فاطمہتصویر: Privat

‘ظلم برداشت کرنا بھی گناہ ہے‘، گھریلو تشدد کی مبینہ طور پر شکار خاتون فاطمہ سہیل کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بُک پر اس پوسٹ نے سوشل میڈیا صارفین میں ایک ہلچل مچا دی۔ وہ پاکستان کے معروف اداکار اور گلوکار محسن عباس حیدر کی اہلیہ ہیں۔ فاطمہ کے مطابق محسن عباس نے انہیں کئی مرتبہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اس کی وجہ محسن کے شوبز سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے ساتھ مبینہ جسمانی تعلقات پر باز پرس کرنا بتائی۔ فاطمہ نے اپنی اس پوسٹ میں محسن عباس پر جسمانی تشدد کے جو الزامات عائد کیے اس کے ثبوت کے طور پر اپنی چند تصاویر بھی شیئر کیں جن میں ان کے چہرے اور ہاتھوں پر تشدد کے واضح نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔

فاطمہ کی یہ پوسٹ چند گھنٹوں میں ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور ہیش ٹیگ محسن عباس حیدر پاکستان بھر میں دو روز تک سوشل میڈیا پر سرفہرست رہا۔ فاطمہ کے حق میں نہ صرف عام لوگوں بلکہ کئی معروف شخصیات نے بھی آواز بلند کی۔ ملک کے کئی نامور اداکاروں اور اداکاراؤں اور شوبز سے منسلک دیگر شخصیات نے محسن کی جانب سے اپنی اہلیہ پر ہاتھ اٹھانے کے عمل کو بزدلی سے تعبیر کرتے ہوئے اسے انسان کی بجائے ایک حیوان قرار دیا۔ اس حوالے سے محسن اور پھر فاطمہ کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات پر مبنی پریس کانفرنس بھی کی گئیں۔

اب ذرا آجایئے زوہا نامی ایک 17 سالہ نوجوان دلہن کی طرف جسے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں چند ہفتے قبل اس کے سسرالیوں نے مبینہ طور پر تشدد کے بعد زہر دے کر قتل کر دیا۔ زوہا کی بہن کے مطابق زوہا کو زہر دینے کے بعد اس کے کمرے میں بند کر دیا گیا جہاں وہ طبی امداد نہ ملنے کے سبب گھنٹوں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گئی۔ اس خبر پر جسٹس فار زوہا کے ہیش ٹیگ سے سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی مغفرت کی دعائیں کیں اور پھر چند دن میں یہ معاملہ بھی گھریلو تشدد کے منظر عام پر آنے والے ایسے سینکڑوں واقعات کی طرح عوام کی یاداشت سے محو ہو گیا۔ زوہا کے لیے نہ تو شوبز برادری کی طرف سے کوئی توانا آواز بلند ہوئی اور نہ ہی کسی سیاسی شخصیت نے اس کا نوٹس لیا۔ فاطمہ اور محسن کے معاملے میں تو کئی لوگ اس تذبذب کا بھی شکار ہیں کہ فاطمہ نے تصاویر میں جو چوٹیں دکھائی ہیں، طبی طور پر وہ ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں کرسکتیں کہ وہ محسن کی جانب سے تشدد کا ہی نتیجہ ہیں یا انہیں وہ چوٹیں گر جانے یا کسی اور سبب  لگیں، لیکن زوہا کے معاملے میں تو تمام ثبوت سامنے ہیں۔ آخر 17 سالہ نو عمر دلہن کی لاش سے بڑا تشدد کا اور کیا ثبوت چاہیے؟

لیکن چونکہ زوہا نہ تو خود کوئی سیلیبرٹی تھی اور نہ ہی کسی معروف شخصیت سے اس کا تعلق، تو اس کا معاملہ آخر کیسے اور کب تک انسانی حقوق، خواتین کے حقوق یا گھریلو تشدد وغیرہ کے ہیش ٹیگز کے ساتھ سوشل میڈیا کی زینت بنا رہ سکتا تھا؟ ایک عام سی اس غریب گھریلو لڑکی کے لیے کس معروف شخصیت یا محسن عباس حیدر کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ہزاروں لاکھوں ٹوئیٹس کرنے والوں میں سے کس نے آواز بلند کی؟ اس کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے اور اس کے خاندان کو اپنی بھرپور حمایت کا کس نے یقین دلایا؟ کیا ایک عام لڑکی پر تشدد کا درد اور کسی سیلیبرٹی کی بیوی بہن یا بیٹی پر جسمانی تشدد کی تکلیف کا احساس مختلف ہوتا ہے؟ یا پھر گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے لیے ہماری ہمدردیوں کے معیارات مختلف ہیں؟

پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد نئی بات نہیں۔ اخباروں میں روز ہی گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے حوالے سے خبریں چھپتی ہیں۔ ان میں دن، تاریخ، مقام اور متاثرہ خواتین کے نام بدل جاتے ہیں لیکن خبر ایک سی رہتی ہے۔ کوئی اپنے شوہر کے ہاتھوں جسمانی ایذا اٹھاتی ہے تو کسی کاباپ، بھائی یا بیٹا اس کا محافظ بننے کے بجائے اس کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ تھامپسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی گزشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا غیر محفوظ ترین ملک ہے۔ پاکستان میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی مدد کے لیے بنائی گئی مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے سربراہ ضیاء احمد اعوان کی گزشتہ برس کی ایک پریس کانفرنس بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ صرف 2017ء میں ملک کی 70 فیصد خواتین نے کسی نہ کسی صورت میں گھر میں اپنے پیاروں کے ہاتھوں تشدد کا درد اٹھایا۔

فاطمہ سہیل اور محسن عباس حیدر کے معاملے پر شوبز شخصیات کی جانب سے جو ٹوئیٹس کی جا رہی ہیں ان میں سے کئی نے تو یہ دعوٰی بھی کیا کہ یہ بات انہیں معلوم تھی کہ محسن شادی کے چند دن بعد سے لے کر اب تک یعنیِ چار سال کے عرصے میں فاطمہ سہیل کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ایک گلوکارہ نے یہ بھی کہا کہ وہ فاطمہ کو محسن کے ہاتھوں پٹتے ہوئے دیکھ چکی ہیں۔ اس کے باوجود چار سالوں سے یہ تمام افراد کیوں چپ تھے؟ اس وقت ان سب کی ہمدردیاں کہاں اور کس انتظار میں تھیں؟ کیا فاطمہ کو خود پر بیتی گئی ظلم کی داستان قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خواتین کو تحفظ دینے والے اداروں کے سامنے لانے کے لیے تیار کرنے والا کوئی نہیں تھا؟ ان کا آپس کا معاملہ ہے یا ان کے گھر کے جھگڑے میں ہم کیوں بولیں جیسی سوچ رکھنے والے اب کیوں فاطمہ کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں؟ کیا یہ دوغلا پن نہیں؟ یا کہیں یہ خود پر مظلوموں کا ہمدرد ایکٹیوسٹ کا لیبل لگواتے ہوئے سستی شہرت حاصل کرنے کا طریقہ تو نہیں؟ ان سوالات کا جواب اب چاہے جو بھی ہو لیکن کم از کم اس کا ایک مثبت پہلو تو یہ نکلا کہ حقوق انسانی کی وزیر سینیٹر شیری رحمان نے بھی اس کیس کا فوری نوٹس لیا اور فاطمہ کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا جس کے بعد فاطمہ اور شیری رحمان کی اسلام آباد میں ایک ملاقات بھی ہوئی۔ محسن کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا، کئی شوبز ستاروں ہی نے نہیں بلکہ جس نجی چینل سے وہ منسلک تھے اس نے بھی محسن سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔

گھریلو تشدد کا معاملہ بلاشبہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے اور اس کی پر سطح ہر مذمت ضروری ہے۔ صرف مذمت ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف فوری اقدامات بھی ضروری ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے رویوں کے دہرے معیار بھی تبدیل کرنا ہوں گے۔ عوامی مذمت کے علاوہ لاکھوں مداحوں کے ہر دلعزیز ستاروں کا شدید رد عمل بلاشبہ محسن اور فاطمہ کے معاملے کو انتہائی برق رفتاری سے قانونی سطح پر آگے بڑھانے میں کارفرما ہے لیکن گھریلو تشدد کا معاملہ صرف با اثر شخصیات کے ردعمل کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح فاطمہ سہیل کے معاملے نے ملک کے لاکھوں لوگوں کو محسن کے خلاف آواز اٹھانے پر مائل کیا ہے، اسی طرح اگر یہ آوازیں گھریلو تشدد کے ہر واقعے کے خلاف اٹھنے لگیں تو یقین جانیے زوہا جیسی کتنی ہی عورتیں گھریلو تشدد کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائیں گی اور نہ ہی کوئی فاطمہ سہیل جسمانی تشدد کا شکار بنے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔