گورنر راج آئینی یا غیر آئینی
6 مارچ 2009منگل کے روز گورنر راج کے خلاف دائر کی جانے والی دو الگ الگ درخواستوں کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سفارش کی کہ ان درخواستوں کی مزید سماعت کے لئے بڑا بنچ تشکیل دیا جائے۔ عدالت عالیہ نے اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستا ن اور ایڈو کیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹس جاری کئے ہیں۔
ایک درخواست گذار احمد شیر خان بلوچ کے وکیل اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’’اس میں بنیادی باتیں یہ تھی کہ جو ہمارے آئین کا آرٹیکل 234 ہے وہ یہ کہتا ہے کہ جب ملک کے اندر کوئی آئینی بحران یا آئینی ڈیڈ لاک پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جا سکتا ہے لیکن وزیر اعلیٰ کے نا اہل ہونے کی صورت میں گورنر راج نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنا غیر آئینی ہو گا۔ عدالت میں اسی مسئلے پر کافی غور وخوص ہوا بعد ازاں فاضل عدالت نے اس درخواست کو با قاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں جاری محاذ آرائی اب عدالتی ایوانوں میں پہنچ چکی ہے۔ کیا عدالتی جنگ ملک میں جاری اس بحران کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق جج، جسٹس ریٹائرڈ کے۔ ایم صمدانی کہتے ہیں کہ قوم کو عدالتوں کے حوالے سے کچھ زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق پاکستان میں آئین کے تحت اگرچہ عدالتیں آزاد ہیں لیکن پھر بھی ججوں کے لئے آزادانہ طور پر فیصلے کرنا آسان نہیں ہے۔
یاد رہے مسلم لیگ (ن) گورنر راج کے خاتمے کے لئے عوامی سطح پر بھی بھرپور احتجاجی تحریک چلا رہی ہے اور صدر زرداری پر گورنر راج کے خاتمے کے حوالے سے دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔