گوانتانامو میں بند قیدیوں کے حقوق کا متنازعہ معاملہ
11 جولائی 2008امريکہ کی سپريم کورٹ کے ایک اہم فيصلے کے بعد ایک دائر کردہ اپيل کا فيصلہ سنايا بھی جا چکا ہےاور ﺍس کے مطابق ملزم کے خلاف شواہد ﺍس قدر نا کافی تھے کہ اس کی گرفتاری کا کوئی جواز ہی پيدا نہيں ہو تا ہے۔
بش حکومت يمن سے مذاکرات کر رہی ہے اور ا س نے وزارت دفاع ميں وکيلوں ميں اضافہ کر ديا ہے۔ وہ ﺍس مشکل سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ رہی ہے۔
حکومتی ترجمان Dana Perino نے بش حکومت کے بھيانک خواب کو ﺍن الفاظ ميں بيان کيا: 'مجھے يقين ہے کہ يہ کوئی بھی نہيں چاہے گا کہ خالد شيخ پڑوس ميں آزاد پھر رہا ہو'۔
امریکی صدر کی ترجمان نے ايک خوفناک منظرکشی کی ہے۔ يعنی خود دہشت گردی کی منصوبہ بندی کا اعتراف کرنے والا خالد شيخ امريکہ ميں ايک ازاد شخص کی حيثيت سے۔ ايسا ہو نہيں سکتا کيونکہ خا لد شيخ نے اقبال جرم کر ليا ہے۔ ليکن امريکی حکومت نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دی ہے کيونکہ اسے يہ خدشہ ہے کہ امريکی سول عدالتيں ثبوت ناکافی ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے مشتبہ افراد کو گوانتانامو کی جيل سے رہا کرنا شروع کر دے گی اور پھر وہ امريکہ کی سرزمين پر آزاد پھر رہے ہوں گے۔
گوانتانامو ميں تقریباً دو سو ستر افراد کو قيد رکھا گيا۔ ان ميں سے جن پر واقعی جرم کا الزام لگايا گيا ان کے نام انگليوں پر گنے جا سکتے ہيں۔ لنکن وائٹ ہاوٴس ميں اسے دوسری نظر سے ديکھا جاتاہے۔گوانتانامو کے اسّی قيديوں پر فوجی عدالت ميں مقدمہ چلايا جاناچاہئے۔ پينسٹھ کو ان کے ملکوں ميں واپس بھيج ديا جائے گا۔ تقريبا ايک سو بيس باقی بچيں گے جنھيں امريکی حکومت انتہائی خطرناک سمجھتی ہے ليکن ان کے خلاف اس کے پاس کافی ثبوت معلوم نہيں ہو تے۔
حکومتی ترجمان Dana Perino نے کہا کے اب تک کے تجربے سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ بش حکومت کے تفکرات بے بنياد نہيں ہيں: 'بعض قيديوں کو رہا کر ديا گيا۔ ا ن میں سے کچھ ميدان جنگ ميں واپس پہنچ چکے ہيں۔ بعض خودکش حملہ آور بن چکے ہیں۔ اس لئے قيدنوں کے بارے ميں فيصلہ کرتے وقت بہت احتياط کی ضرورت ہے۔'
يہ بات متنازعہ ہے۔ حقوق انسانی کے حاميوں اور قيديوں کے وکلاء کا کہناہےکہ بش حکومت جان بوجھ کر اعدادوشمار میں مبالغہ آرائی کر رہی ہے۔ وہ خوف پيدا کرنا چاہتی ہے۔ قانونی امور کے ماہر Charles Simpson نے کہا کے اس کے لئے نئے قانون کی ضرورت ہے ليکن امريکہ ميں انتخاباتی مہم جاری ہے۔ سينيٹ اور کانگريس ميں اکثريت والے ڈيموکريٹ چاہتے ہيں کہ بش اپنی پاليسی کا خميازہ اب خود ہی بھگتيں۔