گوانتانامو جیل کا مستقبل امریکی رائے دہندگان کے ہاتھ میں
17 ستمبر 2008امریکہ میں بش انتظامیہ نے گوانتانامو میں متنازعہ امریکی جیل میں موجود دہشت گردی سے متعلق دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ملزمین کو ان کے وطن بھیجنا شروع تو کردیا ہے مگر اس بات کی امید اب بھی بہت کم ہے کہ گوانتانامو جیل کو اس سال کے آخر تک مکمل طور پر بند کیا جا سکے۔
گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جنوری دو ہزار دو میں قائم کی جانے والی اس جیل کو بند کرنے میں کئی طرح کی قانونی اور عملی مشکلات حائل ہیں۔ امریکی حکومت کے مطابق دو سو پچپن میں سے اسّی کے قریب قیدیوں کو خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے جب کہ ان میں سے ساٹھ کو ان کے ممالک کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ گوانتانامو جیل میں مقیّد ایک سو پندرہ کے قریب قیدیوں کے مستقبل کے بارے میں اس وقت کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی ہے۔
اس صورتِ حال کے پیش ِنظر یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ گوانتانامو بے کی جیل اور اس میں موجود قیدیوں کا مسئلہ نئی امریکی انتظامیہ کو منتقل ہو جائے گا جس کے قائم ہونے میں اب چند ماہ ہی باقی ہیں۔ رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان میک کین اور ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار باراک اوباما دونوں ہی اس جیل کو بند کرنے پر متفّق ہیں۔ تاہم دونوں امیدواروں میں اس حوالے سے نظریاتی اختلافات ضرور پائے جاتے ہیں۔
باراک اوباما جان میک کین کی نسبت عراق جنگ کے بہت بڑے مخالف ہیں اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکی پالیسی میں، گو کلّی طور پر نہیں، مگر چند ایک تبدیلیوں کے خواہش مند ضرور ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی عدالتیں گوانتانامو کے قیدیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی اہل ہیں۔ جان میک کین دوسری طرف گوانتانامو جیل بند تو کرنا چاہتے ہیں مگر اس حوالے سے ان کی کچھ شرائط ہیں۔
دوسری جانب امریکہ اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں گوانتانامو جیل کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتی ہیں اور اس کو فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ اس جیل میں مقیّد قیدیوں کے اہلِ خانہ بھی گوانتانمو جیل کو بند کرنے کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں تاہم یہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا کہ نظر آتا ہے۔
گوانتانامو جیل برقرار رہے گی یا بند کردی جائے گی اس کا انحصار بڑی حد تک امریکی رائے دہندگان پر ہے جو امسال نومبر میں اپنے صدر کا انتخاب کریں گے۔