1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گندم کی فروخت، اسلامک اسٹيٹ کا نيا ہتھکنڈا

عاصم سليم1 اکتوبر 2014

شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ نے عراق ميں گندم کی کاشت کے ايک بڑے علاقے پر قبضہ کر ليا ہے اور اب يہ تنظيم نہ صرف خوراک کے اس اہم ذريعے کی فروخت سے رقم جمع کر رہی ہے بلکہ اس کی مدد سے اقليتوں کو نشانہ بھی بنايا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DOKo
تصویر: picture-alliance/dpa

صالح پولوس عراقی صوبے موصل ميں گندم کاشت کيا کرتا تھا۔ پيشے کے اعتبار سے ايک کسان پولوس مسيحی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ جب شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے جہادیوں نے موصل پر چڑھائی کی، تو وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنا گھر بار اور کھيت کھليان سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے چلا گيا۔ نقل مکانی کرنے کے دو ہفتوں بعد پولوس کو ايک ٹيلی فون کال موصول ہوئی، جس ميں ایک جہادی اس سے يہ سوال کيا کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر کيوں چلا گيا؟ اس پولوس کو يہ پيشکش کی کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرے اور پانچ سو ڈالر ادا کرے، جس کے بدلے ميں اس کے جان و مال کی حفاظت کو يقينی بنايا جا سکے گا۔

سنی شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ اس وقت عراق کے ايک تہائی سے زائد حصے پر قابض ہے
سنی شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ اس وقت عراق کے ايک تہائی سے زائد حصے پر قابض ہےتصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael

يوں پولوس کو اپنے مذہب اور جائیداد ميں سے کسی ايک کا انتخاب کرنا تھا۔ اس نے جہادی کی پيشکش کر مسترد کر ديا، جس کے بعد اس سے کہا گيا کہ اس کی گندم کی کاشت پر قبضہ کيا جا رہا ہے اور يہ چوری نہيں کيونکہ اسے فيصلہ کرنے کا اختيار ديا گيا تھا۔

پولوس ايسا واحد کسان نہيں جسے اس نوعيت کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ خطے کے ديگر کئی اور کسانوں نے بھی اسی طرز کے تجربات بيان کيے ہيں، جس سے ايک مرتبہ پھر شدت پسند تنظيم آئی ايس سے لاحق خطرات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ اسلامک اسٹيٹ کے شدت پسند اس وقت عراق ميں گندم کی پيداوار والے ايک بڑے حصے پر قابض ہيں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت اسلامک اسٹيٹ کے زير کنٹرول جو علاقہ ہے، وہاں ملک ميں گندم کی سالانہ پيداوار کی چاليس فيصد کاشت کی جاتی ہے۔ يوں يہ جہادی نہ صرف زمين پر اپنا قبضہ بڑھاتے جا رہے ہيں بلکہ وہ ساتھ ساتھ وسائل پر بھی قبضہ کر رہے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ عراق ميں گندم خوراک کا ايک اہم ذريعہ ہے۔

اب جبکہ گندم کی ايک بڑی مقدار اسلامک اسٹيٹ کے قبضے ميں ہے، انہوں نے گندم بيچ کر اس سے رقم حاصل کرنا بھی شروع کر ديا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسيحی اور ايزدی اقليتوں کو بھی خوارک کے اس اہم ذریعے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

يہی وہ حکمت عملی اور ہتھکنڈے ہيں، جن کی بنياد پر ان دنوں اسلامک اسٹيٹ کو دہشت گرد نيٹ ورک القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ قرار ديا جا رہا ہے۔ القاعدہ بنيادی طور پر دہشت گردانہ حملوں ميں ملوث رہا ہے جبکہ اسلامک اسٹيٹ اپنے آپ کو حکومت اور فوج دونوں کے طور پر ديکھتی ہے۔

موصل اور اربيل کے قريب واقع ايک شہر مخمور ميں کسانوں کی مقامی يونين کے سربراہ علی بن ديان کہتے ہيں کہ گندم وہاں اسٹريٹيجک اہميت کی حامل ہے اور جہادی اسے جس حد تک ہو سکتا ہے استعمال کر رہے ہيں۔

سنی شدت پسند تنظيم اسلامک اسٹيٹ اس وقت عراق کے ايک تہائی سے زائد حصے پر قابض ہے۔ پڑوسی ملک شام ميں بھی اس کے زير کنٹرول علاقوں کی شرح ايک تہائی ہی کے قريب بنتی ہے۔ يہ گروپ گندم کی فروخت کے علاوہ ناجائز ٹيکسوں، لوٹ مار، اغواء برائے تاوان، تيل کی فروخت اور ديگر غير قانونی ذرائع سے رقم جمع کرتا ہے۔