گریٹ بیریئر ریف کے سبز کچھووں کی بقا کو شدید خطرات لاحق
گرم ہوتے ہوئے ماحول کی وجہ سے آسٹریلیا کے علاقے گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے سبز نسل کے سمندری کچھووں کے ہاں صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس طرح کچھووں کی اس نسل کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
صرف مادہ ہی باقی بچیں گی؟
دنیا بھر میں سبز سمندری کچھوے گریٹ بیریئر ریف میں ہی سب سے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ محقیقن نے حال یہ پریشان کن انکشاف کیا ہے کہ اس علاقے میں اب صرف مادہ کچھوے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ اس پورے علاقے میں دیے جانے والے انڈوں میں سے صرف ایک فیصد سے نر بچے نکل رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس نسل کے خاتمے کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
نر کچھووں کو گرمی برداشت نہیں
کچھوے جب انڈے دیتے ہیں تو اس وقت یہ علم نہیں ہوتا کہ اس سے نکلنے والا بچہ نر ہو گا یا مادہ ۔ جنس کا تعین اس علاقے کا درجہ حرارت کرتا ہے، جہاں پر یہ انڈے دیے جاتے ہیں۔ ریت جس قدر گرم ہو گی مادہ کچھوا پیدا ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اگر درجہ حرارت 29.9 ڈگری سینٹی گریٹ یا اس سے تجاوز کرے گا تو نر پیدا ہی نہیں گا۔
نر اور مادہ میں فرق مشکل
ابتدائی مراحل میں کچھوے کی جنس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ اسی وقت واضح ہوتا ہے جب کچھوے مکمل طور پر بڑے ہو جاتے ہیں اور اس عمل میں بیس سال لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مادہ کچھووں میں ہونے والے اس ہوش ربا اضافے کے بارے میں فوری علم نہیں ہو سکا۔
پریشان کن اعداد و شمار
امریکا اور آسٹریلیا کے محققین نے سبز سمندری کچھووں کے جنس کے بارے میں جاننے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا ہے۔ اس طرح کچھوے کے بچوں کے ڈی این اے اور خون ٹیسٹ کرتے ہوئے جنس معلوم کی جائے گی۔ تاہم انہیں اس بات کی توقع نہیں تھی کہ آج کل گریٹ بیریئر ریف میں پائے جانے والے نوے فیصد کچھوے مادہ ہیں۔
شاذ و نادر جنسی ملاپ
نر کچھووں کی تعداد میں کمی صرف سبز سمندری کچھووں کا ہی مسئلہ نہیں۔ عام طور پر بھی کچھوے پندرہ سال کی عمر میں جنسی ملاپ کے قابل ہوتے ہیں اور یہ ہر تین سال میں ایک مرتبہ جنسی عمل سے گزرتے ہیں۔ ارتقائی حوالے سے بات کی جائے تو مادہ کچھووں کی تعداد میں معمولی سا اضافہ غیر معمولی بات نہیں تاہم نر کے نہ ہونے سے کچھوے ناپید ہو جائیں گے۔
ایک وقت میں دو سو بچے
مادہ کچھوے انڈے دینے کے لیے کئی مرتبہ ساحلوں پر آتی ہیں۔ بحرالکاہل پر ’رینے آئی لینڈ بیچ‘ سبز سمندری کچھووں کی افزائش کے اعتبار سے سب سے بڑا علاقہ ہے۔ یہاں پر انڈوں کے موسم میں اٹھارہ ہزار تک کچھوے موجود ہوتے ہیں۔ سورج کی مناسب گرمی اور ریت میں دیر تک دبے رہنے کے بعد انڈے سے بچے نکل کر پانی کا رخ کرتے ہیں۔ پھر یہ اسی وقت ساحل پر آتے ہیں، جب انہیں انڈے دینا ہوتے ہیں۔
کم ہوتے ہوئے نر کچھوے
محققین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں مادہ کچھووں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں نے ہوائی کے ساحلوں اور مغربی بحرالکاہل میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبز سمندری کچھووں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ ابتداء میں ہی جنس کے تعین کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے یہاں بھی حیران کن نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
خطرنک حدت
آسٹریلوی محققین کا مرتب کردہ یہ جائزہ دیگر جانوروں کے لیے بھی کوئی اچھی خبر نہیں۔ چھپکلیوں اور دیگر رینگنے والے جانوروں کے ہاں بھی درجہ حرارت جنس کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ الیگیٹرز کے ہاں معاملہ بالکل مختلف ہے، جتنی گرمی ہو گی انڈوں سے اتنے ہی نر بچے نکلیں گے۔