1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بلند ترین سطح پر: اقوام متحدہ

26 نومبر 2019

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ کرہٴ ارض پر کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کا اخراج بلند ترین سطح کو پہنچ چکا ہے اور اس میں کمی کے کوئی آثار نہیں۔

https://p.dw.com/p/3Tkk9
تصویر: picture-alliance/dpa/Geisler-Fotopress

عالمی موسمیاتی ماہرین کے مطابق، پچھلی بار ان نقصان دہ گیسوں کی بلند ترین سطح ایک دہائی قبل ریکارڈ کی گئی تھی۔ لیکن سن 2018  میں ہوا میں ان گیسوں کی موجودگی مزید بڑھ گئی۔

اقوام متحدہ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسیں  قدرتی ماحول کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ ان گیسوں میں میتھین اور نائٹروس آکسائڈ بھی شامل ہیں۔ 

کاربن ڈائی آکسائڈ گیس فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھوئیں سے ہوا کو خراب کرتی ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

Deutschland BdT Hitze Sonnenuntergang in Siegen
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Traut

سن نوے سے لے کر گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے کرہٴ ارض کے درجہ حرارت میں 43 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کوئلے کا استعمال ماحول کے لیے سب سے زیادہ نقصان ثابت ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی اگلی ماحولیاتی کانفرنس آئندہ ہفتے اسپین کے شہر میڈرڈ میں منعقد ہونے جاری ہے، جس میں  خیال ہےکہ رکن ممالک مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

Frankreich Demo vor die COP21
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Thibault Camus

سن 2015 میں طے پانے والے پیرس معاہدے میں صنعتی آلودگی کے ذمہ دار ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا عہد کیا تھا۔ یہ معاہدہ برسوں کی مسلسل محنت اور طاقتور ممالک کے درمیان پیچیدہ مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ امریکا نے اس وقت کے صدر باراک اوباما کی قیادت میں اس عالمی سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔

لیکن امریکا کی با اثر صنعتی لابی ماحولیاتی تحفظ سے متعلق  ان کوششوں کی مخالف رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کا اس لابی سے وعدہ تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے، تو امریکا کو اس معاہدے سے نکال لیں گے۔ اس سال نومبر کے شروع میں امریکا نے تحفظ ماحول کے اس عالمی معاہدے سے علیحدگی کے عمل کا آغاز کر دیا۔

انخلا کی کارروائی میں امریکا کو ایک سال لگے گا اور یہ عمل اگلے برس امریکی صدارتی الیکشن کے ایک دن بعد یعنی چار نومبر کو مکمل ہوگا۔

Infografik schlimmste Treibhausgas-Emittenten EN
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں