کینیا میں کاٹھ کباڑ سے تخلیقی کام
کینیا میں چند فنکاروں نےکاٹھ کباڑ سے مجسمے اور زیورات تخلیق کرنا شروع کیے ہیں۔ یہ ماحول دوست بھی ہیں۔
تحفظ ماحول اور فیشن
لندن اور پیرس کی طرح کینیا کے دارالحکومت نے بھی ماحول دوست فیشن نے اپنا مقام بنا لیا ہے۔ اس نئے رجحان کو ’’ Upcycling ‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرز کے فیشن میں کاٹھ کباڑ اور بے مصرف سامان کو کسی کارآمد شے میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
دوسری زندگی
نائیک گیلاگر کون ڈاکس نے پرانے اور بے کار ملبوسات کو استعمال میں لاتے ہوئے کپڑوں کا اپنا ایک نیا کلیکشن متعارف کرایا ہے۔ یہ پرانے کپڑے بڑی مقدار میں یورپ سے کینیا درآمد کیے جاتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان یہ ہو رہا ہے کہ مشرقی افریقہ میں کپڑے اور چمڑے کی پیداور کم ہو گئی ہے۔ کون ڈاکس پرانے کپڑوں کو لمبائی میں کٹواتی ہیں اور پھر انہیں دوبارہ سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر نئی شکل دی جاتی ہے۔
کانچ کے ٹکڑے خوش قسمتی کی علامت
کانچ ایک خام مال ہے۔ پلاسٹک کے اس دور میں ابھی بھی کینیا میں شیشے سے بنی ہوئی اشیاء کی بہتات ہے۔ نیروبی سے جنوب میں کیٹنگیلا نامی گاؤں میں ایک جرمن فنکار نانی کروزی نے شیشے سے تیار کیے گئے فن پاروں کا اہم ترین پیداوار مرکز قائم کیا ہے۔ یہاں تقریباً چالیس فنکار اپنی تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ فنکاروں کے اس چھوٹے سے گاؤں میں ٹنوں کے حساب سے کانچ کے ٹکڑے دکھائی دیتے ہیں
رنگ برنگی اشیاء
کیٹنگیلا گاؤں سے تعلق رکھنے والے تخلیق کار ہاتھ سے تیار کیے گئے اپنے منفرد منکوں یا موتیوں کی وجہ خاص شہرت رکھتے ہیں۔ خطے کے فیشن ڈیزائنرز ان منکوں میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہاں پر صرف پہلے سے تیار اشیاء ہی دستیاب نہیں ہیں بلکہ ڈیزائنرز اپنی مرضی کے مطابق بھی اشیاء تیار کر وا سکتے ہیں۔
’ تخلیق کرنا ‘ پھینکنے سےبہتر ہے
کیٹنگیلا نامی اس گاؤں میں فنکار ایک برادری کی صورت میں رہتے ہیں۔ کیبا پیٹرک گزشتہ چار برسوں سے اس برداری کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ میں نے ہمیشہ بے کار اشیاء کو تخلیقی رنگ دیا ہے‘‘۔ اب وہ اپنے اس تجربے کو شیشے سے تیار کیے گئے فن پاروں کو اس اہم ترین پیداواری مرکز میں استعمال کر رہے ہیں۔
ماحول دوست آرٹ
کیبا پیٹرک کا آرٹ ان کا ذریعہ معاش ہے۔ ساتھ ہی ان کے بنائے ہوئے فن پارے ماحول دوست بھی ہیں۔ افریقہ میں پلاسٹک کی بوتلوں اور دیگر اشیاء کو صنعتی پیمانے پر دوبارہ سے قابل استعمال بنانے یا ری سائیکل کرنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہاں کاٹھ کباڑ ہر جگہ دکھائی دیتا ہے
کاٹھ کباڑ سے زیورات
زیورات کی ڈیزائنر ماریا روز ایبرلی’کیٹنگیلا ‘ میں تیار کیے جانے والے منکوں کو اپنے زیورات میں استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود بھی کاغذ، ہڈیوں، سینگوں اور المونیم سے موتی اور دانے بناتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پلاسٹک سے زیادہ دلچسپ ان اشیاء کے ساتھ کام کرنا ہے۔
ری سائیکلنگ یا اپ سائیکلنگ
ماریا روز ایبرلی کہتی ہیں کہ انہیں یہ تو علم نہیں کہ سینگوں یا ہڈیوں سے تخلیق کیا گیا فن آیا ری سائیکلنگ یا اپ سائیکلنگ لیکن المونیم سے بنائی گئی اشیاء واضح طور پر اسی زمرے میں آتی ہیں۔ وہ گاڑیوں کے خراب انجن کے حصوں سے بھی نت نئے انداز کے زیور ڈیزائن کرتی ہیں۔
روایات ایک نئے روپ میں
ایبریلی کہتی ہیں کہ چیزوں کو جمع کرنے اور انہیں ایک نئی شکل دینے کا احساس ہی ان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایبریلی کے بقول ’’ اسے ری سائیکلنگ کہیں یا اپ سائیکلنگ ’کیٹنگیلا‘ میں تخلیق کیا جانے والا آرٹ ایک ہی وقت میں روایت بھی ہے اور رجحان بھی۔ فن کے اس انداز کی یورپ میں بھی مانگ ہے۔