1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا کورونا وبا کے دوران سماجی فاصلہ خود کشیوں کا باعث بنا؟

28 مئی 2020

یورپ میں جس وقت میل ملاپ کو محدود کرنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے متعلق پابندیاں عائد کی جا رہی تھیں، طبی ماہرین نے اسی وقت خبردار کر دیا تھا کہ اس کے نتائج مہلک اور ذہنی بیماريوں کی صورت میں نکلیں گے۔

https://p.dw.com/p/3cuCv
Silhouette von einer Person l Symbolbild
تصویر: picture alliance/empics/N. Carson

نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جب لوگوں کو صرف گھروں تک محدود رہنے کی تلقین کی جا رہی تھی، اس وقت بہت سے طبی ماہرین کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تنہائی سے لوگوں کو اضطراب میں اضافے کے ساتھ ساتھ مالی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس دوران ان کی تھراپی بھی ممکن نہیں ہو گی اور یوں جرمنی میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

جرمنی میں کچھ شواہد ایسے سامنے بھی آئے ہيں، جو کسی حد تک ان خدشات کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔ اپریل کے اواخر میں جرمن فائر بریگیڈ یونین نے بزنس انسائیڈر سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے اہلکاروں کو زیادہ خود کشیوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے اور ایسی تحریریں بھی ملی ہیں، جن میں خودکشی کرنے والوں نے بتایا کہ وہ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ تاہم اس یونین نے اعتراف کیا کہ سرکاری سطح پر ایسے اعداد و شمار جمع نہیں کیے گئے۔

تاہم اب جرمن پارلیمانی حکام نے اس حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے بحران کے دوران خودکشی کرنے والوں کی شرح میں در اصل کمی واقع ہوئی ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال پابندیوں کے نفاذ کے بعد والے مہینوں میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 664 افراد نے خودکشی تھی جبکہ اب یہ تعداد 530 بنتی ہے۔

Coronavirus viele Menschen aufgrund neuer Regierungsrichtlinien zwingt, zu Hause zu bleiben
تصویر: picture-alliance/Newscom/R. Ben-Ari

ایسا کیسے ممکن ہے؟

 جرمن ڈپریشن لیگ کے ڈپٹی چیئرمین تھوماس فوگٹ کے مطابق جب تک اس حوالے سے کوئی تجرباتی تحقیق نہیں ہوتی تب تک اس کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔ یہ خود بھی ڈپریشن کے شکار افراد کو طبی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا تھا، '' جب سے کورونا وائرس کا آغاز ہوا ہے، ڈپریشن کا علاج کروانے والے مریضوں کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔ یہ ایک تضاد ہے۔‘‘

جرمن ڈپریشن ہیلپ (ڈی ڈی ایچ) کے چیئرمین اُلرش ہیگرل کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، '' میرے لیے فی الحال یہ ناکافی اعداد و شمار ہیں۔ ابھی خودکشیوں کی شرح پر گفتگو کرنا قبل از وقت ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ نوے فیصد افراد جو خودکشی کرتے ہیں، وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ موجودہ صورتحال ڈپریشن میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

 دنیا میں ہونے والے کئی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا بحران کے دوران لوگوں کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے۔ کائزر فیملی فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق پینتالیس فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہے جبکہ انیس فیصد کا کہنا تھا کہ وہ 'بری طرح متاثر‘ ہوئے ہیں۔ امریکی ڈیسزاسٹر ڈسٹریس ہیلپ لائن پر فروری سے مارچ کے دوران کی جانے والی کالز میں تین سو فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

جرمنی کے ہنوور میڈیکل اسکول (ایم ایچ ایچ) نے اپریل کے پہلے دو ہفتوں میں ایک سروے کیا تھا، جس میں پینتیس سو سے زائد شہریوں نے حصہ لیا۔ اس سروے میں شامل پچاس فیصد سے زائد افراد کا کہنا تھا کہ وہ زیادہ چڑچڑے ہو گئے ہیں جبکہ انتیس فیصد کے مطابق ان کو غصہ زیادہ آنے لگا ہے اور ان کا مزاج جارحانہ ہو گيا ہے۔

یونیورسٹی میڈیکل سینٹر مائنز کے ماہر نفسیات ہاؤکے وائیگانڈ کا خبردار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ابھی تو کورونا بحران کے اثرات کی صرف چند تصاویر ہی سامنے آئی ہیں جبکہ مزید تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''ماضی سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ خودکشیاں معاشی بحران کے دوران ہوتی ہیں۔ اصل دباؤ بے روزگاری اور مالی پریشانیوں کا ہوتا ہے۔ تو ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔‘‘