1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ٹرمپ جرمنی کو نافرمانی کی سزا دے رہے ہیں؟

10 جون 2020

کیا جرمنی کو اپنے مفادات اور ان کا تحفظ کرنے کا حق ہے؟ اگر امریکی حکومت سے پوچھیں تو اس کا جواب ہوگا: ضرور، لیکن صرف امریکی آشیرواد سے! ڈی ڈبلیو کے میودراگ زورِچ کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/3dYYr
US-Airbase Ramstein
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

امریکا نے روس اور جرمنی کے درمیان زیر سمندر نورڈ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن بنانے پر یورپی کمپنیوں پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ یہ پائپ لائن چھیانوے فیصد مکمل ہو چکی ہے۔ بُحرہِ بالٹک کی تہہ میں بچھائے جانے والی قدرتی گیس کی یہ پائپ لائن روس سے سیدھا جرمنی جائے گی اور پھر وہاں سے یورپی یونین کے دیگر ملکوں سے منسلک ہو جائے گی۔

جرمن معیشت کا انحصار برآمدات پر ہے اور اس کی صنعت وتجارت کے لیے توانائی کی ترسیل یقینی بنانا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے کاروباری حلقے اور حکومت دونوں اس پائپ لائن کی تعمیر کے حق میں ہیں، گو کہ جرمنی کو احساس ہے کہ بعض ممالک، خاص کر پولینڈ اور یوکرائن کو اس منصوبے پر تحفظات ہیں۔

امریکی یا روسی گیس؟

تاہم امریکی وائٹ ہاؤس کو ان سب باتوں کی کوئی خاص پروا نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس پائپ لائن کو روکنے کا تہیہ کر رکھا ہے، چاہے کچھ ہو جائے۔

جرمنی میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ گرینل ان لوگوں میں شامل ہیں، جو ٹرمپ کو اس کی ترغیب دیتے آئے ہیں۔ تاہم اس قدرے غیرسفارتی سفارت کار نے آخر کار امریکا اور جرمنی کے دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں اب اپنا حصہ ڈالا دیا ہے۔ انہوں نے یکم جون کو استعفیٰ دیا اور جرمنی سے چلے گئے۔

Miodrag Soric in Ferguson / USA
میودراگ زورِچتصویر: DW/Stefan Czimmek

ان کے علاوہ امریکی ریاست ٹیکساس سے انتہائی دائیں بازو کے ریپبلیکن سینیٹر ٹیڈ کروز بھی اس پائپ لائن کے کھلے مخالف ہیں۔ یہ وہ صاحب ہے، جنہیں اپنی پارٹی کے کچھ لوگ "شیطان کا دوسرا روپ" قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ اگر ٹیڈ کروز کبھی کانگریس میں شدید زخمی ہو کر گر پڑیں، تو کوئی ان کے لیے 911 کے ایمرجنسی نمبر پر فون کرنے کی زحمت نہیں کرے گا۔

ٹیڈ کروز برسوں سے امریکی فریکنگ انڈسٹری کے قریب رہے ہیں۔ یہ انڈسٹری یورپ میں اپنی گیس بیچنے کی خواہاں رہی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ امریکی گیس نکالنے کا خرچہ بہت ہوتا ہے اور وہ روسی گیس سے زیادہ مہنگی ہوتی ہے۔

میرکل پر ٹرمپ کا رعب نہیں چلتا

امریکا کسی دور میں دنیا میں آزاد تجارت کا سب سے بڑا وکیل تھا۔ لیکن اب واشنگٹن معاشی مسابقت سے منہ موڑ رہا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ کے لیے اپنے "سب سے پہلے امریکا"  کے نعرہ کے تحت دوسرے ملکوں کو پابندیوں کی دھمکیاں دینا قدرے آسان ہے۔ لیکن ایسا کرکے وہ اپنے ایک انتہائی وفادار اتحادی کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ٹرمپ چار سال سے معاشرے ميں الفاظ کا زہر پھیلا رہے ہيں: تبصرہ

عوامی سطح پر وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن میڈیا اور حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان گرما گرم بحث مباحثے ہو چکے ہیں۔

چانسلر میرکل ایک الگ قسم کی رہنما ہیں۔ وہ مونٹی نیگرو کے سربراہ حکومت کی طرح نہیں، جنہیں امریکی صدر نے اپنے راستے میں کھڑا ہونے پر ایک طرف دھکیل دیا تھا۔ میرکل کے ساتھ وہ ایسا سلوک نہیں کر سکتے۔ میرکل کسی کے رعب میں نہیں آتیں اور یہ بات بظاہر ٹرمپ کو بہت کھٹکتی ہے۔

جرمنی سے امریکی فوجیوں کا انخلا

اب صدر ٹرمپ جرمن چانسلر کو ان کی مزاحمت پر سزا دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ امریکا اس سال کے آخر تک جرمنی سے اپنے دس ہزار یعنی ایک تہائی فوجی واپس نکال رہا ہے۔ بیشتر جرمن شہریوں کو اس کی کوئی خاص فکر نہیں تاوقتِ کہ ملک کو کوئی بیرونی فوجی خطرہ لاحق نہ ہو۔ ویسے بھی جرمنی میں ان فوجیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے شور اور ماحولیاتی آلودگی پر برسوں سے تنقید ہوتی رہی ہے۔ اِن کے انخلا کے معاشی نقصان پر اگر کوئی فکرمند ہے تو ان صرف علاقوں کے مقامی میئر اور کاروباری نمائندے، جہاں یہ فوجی تعینات رہے ہیں۔

برلن ’نیٹو اتحاد کو کمزور‘ کر رہا ہے، امریکی خفیہ ادارے کے سربراہ کا الزام

اصل بات یہ ہے کہ امریکی فوجی اگر جرمنی میں تعینات رہے ہیں تو وہ ان کے اپنے اور نیٹو کے مفاد میں تھا۔ ان کے افغانستان اور عراق میں جاری فوجی مشن جرمن سرزمین سے ہی کنٹرول ہوتے ہیں۔ اب اگر ٹرمپ فوجوں میں خاطر خواہ کمی لاتے ہیں، تو اس کا بنیادی نقصان امریکا کو ہو گا اور اُن کے ملک یورپ سے مزید دور ہو جائے گا۔

چین کا کردار

اور اس کا بڑا فائدہ چین کو ہو گا۔ جب مغربی ممالک آپس میں لڑتے ہیں تو اس سے امریکا کے مقابلے میں چین مضبوط ہوتا ہے۔ اگر یہی رویہ رہا تو امریکا چین کے ساتھ اپنی تجارتی لڑائی میں یورپ پر زیادہ انحصار نہیں کر سکے گا۔ جولائی میں جرمنی یورپی یونین کی ششماہی صدارت سنبھالے گا۔ میرکل کا اب بھی ارادہ ہے کہ وہ یورپی یونین کے تمام سربراہان کے ساتھ مل کر چین کے صدر شی جِن پِنگ کے ساتھ کسی نہ کسی مرحلے پر ملاقات کریں گی۔

اگر یہ ملاقات نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے ہو جاتی ہے تو صدر ٹرمپ کے لیے ایک سفارتی اشتعال انگیزی سے کم نہ ہو گی کیونکہ انہیں اس کے لیے مدعو نہیں کیا جائے گا۔ لیکن وہ چاہیں تو بحیثیت مبصر اس کے بارے میں صرف ٹویٹ کر سکیں گے۔

وہ اگر نومبر کے انتخابات میں ہار جاتے ہیں تو امریکا اور جرمنی کے رشتے جلد بحال ہو جائیں گے۔ ٹرمپ کے مدمقابل ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن سمجھتے ہیں کہ جرمنی کو اپنے مفادات رکھنے اور ان کا تحفظ کرنے کا حق ہے۔

ش ج / ا ا (میودراگ زورِچ)