1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتسعودی عرب

کیا عرب ممالک ترک معیشت کو سہارا دے سکیں گے؟

17 جولائی 2023

ترک صدر ملک کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے اور سرمایہ کاری کی تلاش میں سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ وہ قطر اور متحدہ عرب امارات کو بھی ترکی میں تجارت کے نئے مواقع تلاش کرنے کے لیے قائل کریں گے۔

https://p.dw.com/p/4U0Iu
ایک دہائی پر محیط سرد تعلقات کے بعد حال میں ترکی کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہے
ایک دہائی پر محیط سرد تعلقات کے بعد حال میں ترکی کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہےتصویر: Ozan Kose/AFP/Getty Images

ترکی کے دفتر برائے خارجہ اقتصادی تعلقات کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن تقریباً 200 تاجروں کے وفد کے ہمراہ جدہ پہنچے ہیں۔ ان کی شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات متوقع ہے۔

صدر ایردوآن کے تین روزہ دورے کے دوران سعودی عرب کے ساتھ ساتھ قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی بزنس فورمز کا اہتمام کیا جائے گا۔

 ترک صدر کا سعودی عرب روانگی سے قبل استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہم بہت سے شعبوں میں اپنے تعلقات اور تعاون کو بہتر بنانے کی امید کر رہے ہیں۔ ہم مشترکہ سرمایہ کاری اور تجارتی اقدامات پر توجہ مرکوز کریں گے، جو کہ آنے والے وقت میں مکمل ہوں گے۔‘‘

ترک عوام کو ریکارڈ مہنگائی کا سامنا

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب ترک عوام کو سیلز اور ایندھن پر ٹیکس میں اضافے کا سامنا ہے۔ ترک وزیر خزانہ مہمت سمسیک کا کہنا ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط کو بحال کرنے اور افراط زر کو کم کرنے کے لیے یہ اضافہ ضروری ہے۔

ایک دہائی پر محیط سرد تعلقات کے بعد حال میں ترکی کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہے
ایک دہائی پر محیط سرد تعلقات کے بعد حال میں ترکی کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہےتصویر: Burhan Ozbilici/AP Photo/picture alliance

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ سالانہ افراط زر کی شرح 38 فیصد رہی، جو اکتوبر میں 85 فیصد کی بلند ترین سطح سے کم تھی۔ دوسری جانب آزاد معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ جون میں افراط زر کی اصل شرح 108 فیصد کے لگ بھگ تھی۔

ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں برس پہلے پانچ مہینوں میں 37.7 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور صدر ایردوآن کو امید ہے کہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستیں اس خلا کو پر کرنے میں مدد فراہم کریں گی۔

سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری

ایک دہائی پر محیط سرد تعلقات کے بعد حال میں ترکی کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہے۔ یہ تقسیم سن 2011 کی عرب بہار اور اخوان المسلمون کے لیے ترکی کی حمایت کے بعد پیدا ہوئی، جسے کچھ خلیجی بادشاہتوں کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

سعودی سپر مارکیٹیں ترک سامان کے بائیکاٹ میں شامل

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی جانب سے ترکی کے اتحادی قطر کے بائیکاٹ کے باعث یہ صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی تھی جبکہ سن 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا استنبول میں قتل ریاض حکومت کے ساتھ تعلقات میں مزید خرابی کا باعث بنا۔

خلیجی ممالک کی طرف سے مالی امداد

دو برس قبل ترک صدر نے ان علاقائی طاقتوں کے ساتھ دوبارہ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا اور ان خلیجی ممالک کی طرف سے ہونے والی فنڈنگ نے ترک معیشت پر دباو کم کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

قطر اور متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں ترکی کو کرنسی کے تبادلے کے معاہدوں کے تحت 20 بلین ڈالر فراہم کیے ہیں جبکہ سعودی عرب نے مارچ میںترکی کے مرکزی بینک میں پانچ بلین ڈالر جمع کرائے تھے۔

گزشتہ ماہ ایردوآن کے دوبارہ انتخاب جیتنے کے چند دن بعد متحدہ عرب امارات اور ترکی نے اگلے پانچ برسوں میں ممکنہ طور پر 40 بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

ترک صدر کل بروز منگل قطر اور بدھ کو متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے۔

ا ا / ع ت (اے پی، اے ایف پی)