1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سندھ کو پھر کسی مزاحمتی صوفی کی ضرورت ہے؟

اظہر مشتاق
25 جولائی 2019

وادیء سندھ کی تہذیب دنیا کی دستیاب تاریخ میں چند پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ سندھ کا جغرافیہ پھیلتا اور سکڑتا رہا اور بالآخر گزشتہ بہتر برس سے سندھ ملکِ پاکستان کا صوبہ ہے، جس کے اندر مختلف قومیں اور قومیتیں آباد ہیں۔

https://p.dw.com/p/3MZgN
Azhar Mushtaq - Urdu Blogger
تصویر: Privat

اگر باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو صوبہ سندھ کے بڑے شہروں میں بالعموم اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بالخصوص تما م صوبوں کے لوگ موجود ہیں، جو بسلسلہ روزگار کراچی اور دوسرے شہروں میں آئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہیں کے سکونتی ہو گئے۔ اس سارے عمل میں سندھ واسیوں کی مہمان نوازی اور ان کی مل جل کر رہنے کی تہذیب کا اہم کردار ہے۔ اگر سندھ کے دیہی علاقوں یا نسبتاً چھوٹے شہروں کا رہن سہن، ثقافت یا تہذیب کو ٹٹولا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ہندو مسلمان کا فرق اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کا عنصر کم پایا جاتا ہے۔ یہ بات  قابل ذکر ہے کہ سندھ کے تمام شہروں میں ہندو آبادی پاکستان کے کسی بھی صوبے سے زیادہ ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سندھ کے ہندو اور مسلمان آپس میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل اور معاملات میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ وہ کمرہ جماعت ہو یا  کوئی سماجی محفل، ادبی میلہ ہو یا سیاسی جلسہ  دونوں مذاہب کے ماننے والے ان میں ایک ہی طرح پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔

سندھ کی یہ ثقافت، جس میں ایک تحمل، بردباری اور احساس کا عنصر پایا جاتا ہے، اس میں سندھ کی مثبت تہذیب کو پروان چڑھانے والی چند شخصیات کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ ان شخصیات میں ایک خاص نام صوفی شاہ عنایت اللہ المعروف صوفی شاہ عنایت شہید کا ہے۔ دستیاب روایات اور شاہ عنایت کے مزار پر براجمان گدی نشین کے مطابق صوفی شاہ عنایت کے آباؤ اجداد عراق سے اوچھ اور پھر ملتان سے ہوتے ہوئے سندھ پہنچے۔ ملتان سے سندھ میں داخل ہونے والے شاہ عنایت کے دادا مخدوم صدرالدین  جب سندھ پہنچے تو ٹھٹھہ میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔  شاہ عنایت نے جب ہوش سنبھالا تو تعلیم و تربیت کی غرض سے ملتان میں شیخ شاہی کے پاس پہنچے تو شیخ شاہی نے شاہ عنایت کو بیجا پور(موجودہ بھارت) روانہ کیا اور وہ شاہ عبدالمالک جیلانی کے پاس پہنچ گئے۔ شاہ عبدالمالک جیلانی دکن میں سرکاری ملازمت کرتے تھے۔ شاہ عنایت نے اڑھائی سال شاہ عبدالمالک جیلانی سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد دیگر چار طلباء کے ساتھ جب واپسی کا قصد کیا تو استاد نے ان کے سامنے چار تحائف رکھے، جن میں ایک تلوار بھی تھی۔ شاہ عنایت نے ان چاروں تحائف میں سے تلوار کو پسند کیا۔ استاد نے جب تلوار کی قیمت پوچھی تو شاہ عنایت نے اپنی گردن جھکا کر کہا کہ اس کی قیمت گردن ہے تو استاد نے حکم دیا کہ اس کو کسی  نادار کی گردن اڑانے کے لئے استعمال نہ کیجئے گا۔

روایت کے مطابق جب شاہ عنایت واپس ٹھٹھہ کے نواحی علاقے جھوک شریف پہنچے تو ان کے ساتھ بڑی تعداد میں فقراء بھی موجود تھے۔ ان کے جھوک  شریف واپس پہنچنے سے پہلے مغل سرکار اور اور شاہ عنایت کے خاندان کے درمیان مقدمہ چلا تھا۔ اس مقدمے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مغل سرکار کے نمائندہ  صوبے دار کے حکم سے صوبے دار کے اہل کاروں نے شاہ عنایت کے خاندان کے ساتھ کام کرنے والے چند فقراء کو بلاوجہ ہلاک کیا تھا اور ان کے خون بہا کے نتیجے میں مغل سرکار نے ورثاء کو زمینیں الاٹ کی تھیں۔ یاد رہے کہ اُس وقت خون بہا پر الاٹ شدہ زمینیں کسی بھی قسم کے ٹیکس یا لگان سے مستثنٰی قرار دی جاتی تھیں۔

شاہ عنایت کے ساتھ دلّی سے سندھ تک سفر کرنے والے فقراء جب جھوک شریف پہنچے تو ان کے  زندہ رہنے کے لئے سب سے بڑا مسئلہ روزگار اور کام کاج کرنے کا تھا۔ اس وقت  شاہ عنایت نے وہ زمین دیکھتے ہوئے کہا  تھا، '' آپ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور زمین بھی اللہ کی ہے، اس لئے جو بوئے سو کاٹے۔‘‘ اس وقت سندھ میں جاگیردارانہ نظام عروج پر تھا اور پیداواری رشتہ جاگیردار اور مزارعے کا تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مزارعین کے لیے پیداوار سے کوئی خاص حصہ مقرر نہ تھا۔ جو جاگیردار دے دیتا مزارعین بخوشی قبول کرتے جبکہ شاہ عنایت نے ایک اصول وضع کیا کہ زمینوں پر کام کرنے والا کوئی بھی انسان بلا تخصیص رنگ نسل و مذہب اپنی پیداوار کے نو حصے خود رکھے گا اور دسواں حصہ مسافروں اور ضرورت مندوں کے نان نفقہ کے لئے جمع کروائے گا۔ اس وقت جھوک شریف کے نواح میں  دو بڑے جاگیر دار حمل جاٹ اور نور محمد پلیجو تھے۔

 جب ان کے مزارعین نے  دیکھا کہ شاہ عنائت کے وضع کردہ قانون کے مطابق مزارعین زیادہ فائدے میں ہیں تو ان میں سے اکثر مزارعین دونوں جاگیرداروں کی جاگیروں سے کام ترک کر کے شاہ عنایت کے مرتب کردہ اصولوں کے تحت ان زمینوں پر کام کرنے لگے جو تقریباً کاشت کاروں کے لئے وقف تھیں۔ اس نظام کا خاصہ یہ تھا کہ یہا ں ہر شخص بلا تخصیص رنگ، نسل و مذہب موجود تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی سند ھ کے شہر بدین کے قصبے ٹنڈو غلام دین میں ہندو فقیر مسکین داس کا مزار اور سندھ میں ہی بوجھو بھگت نامی  ہندو بزرگ کا مزار اور مریدین موجود ہیں۔  جب فقراء اور مساکین  ایک جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہوجائیں تو ان کو منظم کرنے کے لئے  کسی سیاسی حکمت عملی یا سیاسی بصیرت کی ضرورت نہیں رہتی۔ تنظیم پھلنے پھولنے لگے  تو استحصال کرنے والا طبقہ اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور تنظیم کو توڑنے کے لئے دربار کا سہارا لیتا ہے۔

شاہ عنایت کی فکر کو پھلتے پھولتے دیکھ کر دونوں جاگیرداروں حمل جاٹ اور نور محمد پلیجو نے گورنر  ٹھٹھہ کے مشیرِ خاص یار محمد کلہوڑو کو یہ اطلاع دی کہ شاہ عنایت سندھ میں لوگوں کو منظم کر رہا ہے اور ہمیں شک ہے کہ یہ حکومت کے خلاف بغاوت کرے گا۔ یار محمد کلہوڑو نے گورنر کو  بتایا کہ ٹھٹھہ کا ایک شخص صوفی درویش کہلاتا ہے مگر وہ اس نظام کا باغی ہے۔ گورنر نے اس وقت کے بادشاہ کو یہی پیغام بھجوایا کہ مغل سلطنت خطرے میں ہے۔  بادشاہ نے  گورنر کے توسط سے سندھ کی سبھی درگاہوں ( جن کی تعداد چالیس بتائی جاتی ہے) کو خط لکھے کہ اگر شاہ عنایت واقعی مذہبی پیشوا ہے تو بتایا جائے اور اگر وہ واقعی باغی ہے تو بھی بتایا جائے۔ فلسفے کی رو سے نئے کے داخلے میں پرانے کی موت ہوتی ہے، اسی لئے سندھ کے چالیس میں سے انتالیس گدی نشینوں نے شاہ عنایت کو ڈھونگی اور باغی قرار دیا صرف  ہالا کے گدی نشین نے یہ لکھا کہ ''فقیر کو جب فقیر کی ضرورت ہو تو اسے اس کی  مدد کرنی چاہئے یا خاموش ہوجانا چاہئے۔‘‘

 سندھ کے گدی نشینوں کا پروانہ پہنچتے ہی مغل فوج نے جھوک شریف اور بالخصوص شاہ عنایت کی حویلی کا  محاصرہ کیا۔ تقریباً چھ مہینے جنگ چلتی رہی، ایک محتاط اندازے، بعض دستاویزات اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روایات کے مطابق شاہ عنایت کے تقریباً چوبیس ہزار مصاحبین ہلاک ہوئے۔ مغل سلطنت کو جب جنگ میں کامیابی نظر نہ آئی تو انہوں نے میر شہزاد تالپور کے ذریعے صلح کا پیغام پہنچایا، میر شہزاد تالپور مغل بادشاہ کی فوج کے سپہ سالار تھے۔

یار محمد کلہوڑو نے قرآن پاک میں داڑھی کا بال ضمانت کے طور پر رکھا کہ یہ اس وقت کے سندھ کی تہذیب تھی۔ گورنر کی طرف جاتے ہوئے شاہ عنایت اپنے مصاحبین سے بولے کہ کلہوڑو کے دل میں دغا ہے۔ اس پر میر شہزاد خان تالپور نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو میں آپ کو بحفاظت واپس  لے کر آسکتا ہوں۔ اس کے جواب میں شاہ عنائت کا یہ  جملہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ''دولہے کبھی سیج سے واپس نہیں جایا کرتے۔‘‘

شاہ عنایت جب گورنر کے پاس پہنچے تو سوال جواب شروع ہو گئے۔ فارسی میں ہونے والی گفتگو کا پہلا سوال  بغاوت کرنے کے متعلق تھا، جواب میں شاہ عنایت نے حافظ شیرازی کا شعر پڑھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: ''ہم کعبے کی طرف منہ کس طرح کریں، جبکہ ہمارے مرشد کا منہ مے خانے کی طرف ہے۔‘‘

مقتل میں پہنچنے کے بعد انقلابی پھندے کو چوم لیا کرتے ہیں، اسی لئے شاہ عنایت نے گورنر ٹھٹھہ کے سامنے اپنا سر پیش کیا۔ یوں ایک انقلابی اشتراکی شعور کی سرگوشی کرتے اپنے انجام کو پہنچا۔ بتایا جاتا ہے کہ شاہ عنایت کی حویلی میں سات کتب خانے تھے، جو گورنر ٹھٹھہ کے حکم پر جلا دیے گئے اور ان کے مصاحبین چن چن کر قتل کیے گئے۔

شاہ عنائت شہید کا مزار آج بھی سندھ کے اندر ایک  غیر روایتی مزار کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن تین سو سال گزرنے کے بعد سندھ کا جاگیردارانہ نظام موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھل چکا ہے۔ اندرون سندھ کے بڑے جاگیردار اپنی زمینوں پر سرمایہ دارانہ عہد میں بننے والی مشینوں سے  زرعی اجناس مزارعین کی محنت سے ہی اگاتے ہیں لیکن مزارعین کو بس گزر بسر کے لئے  غلہ میسر ہوتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کھارے پانی کو میٹھا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن بدین آج بھی پینے کے پانی کو ترس رہا ہے۔ سندھ کے تمام وڈیرے جدید جمہوری نظام کا حصہ ہیں۔ وہ کراچی اور اسلام آباد کے ٹھنڈے اور پرسکون کمروں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منرل واٹر کی بوتلیں ہاتھ میں تھامے تھر میں بھوک اور پیاس سے مرتے انسانوں کو زندگی دینے کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں مگر تھر میں بھوک اور پیاس کا آسیب قابو میں لانے سے قاصر ہیں۔

سلطنت مغلیہ میں نچلی سطح پر جاگیریں بانٹنے اور مزارعین کو برابر ی کے حقوق دینے والے صوفی کے خلاف باغی قرار دینے والے کلہوڑے، پلیجو اور جاٹ آج بھی بنیادی انسانی حقوق اور حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کو قومی سلامتی کے خلاف سازش سمجھتے ہوئے ان کی آوازوں کو دبانے میں مصروف عمل ہیں۔ گوٹھوں میں بسنے والے آج بھی تعلیم، صحت، روزگار، ملکیت اور پیداوار میں حصے سے محروم ہیں۔ انتخابات کے دوران ٹی وی پر چلنے والے اشتہارت میں ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے جملہ مسائل حل ہو چکے ہیں مگر معاشی ابتری، بے روزگاری، صحت کے نامساعد حالات، آفات سے نمٹنے کے لئے ناکافی مسائل  اپنی پوری شدت سے موجود ہیں۔ ان مسائل پر آواز اٹھانے والے مصلحت کا شکار ہیں۔  وہ  ایک ایسی مزاحمت کے متحمل نہیں ہو سکتے  جس سے عام انسانوں کے فائدے کی بات ہو اور ایک منصوبہ بند اشتراکی ترقی کا عمل آگے بڑھے۔

 آج بھی سندھ کو ایک مزاحمتی صوفی کی ضرورت ہے، جو استحصال کنندگان کے خلاف اپنی آواز کو بلند اور عام انسانوں کو منظم کرتے ہوئے سندھ کی حقیقی ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔