1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سائنس مذہب سے خوف زدہ ہے؟

8 اپریل 2018

بہت سے مذہبی واقعات کی سائنسی توجہیات موجود نہیں ہیں اور ایسا نہیں لگتا کہ سائنس دان ان موضوعات پر ہاتھ ڈالیں گے۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے ذوالفقار ابانی کا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/2vg48
Bildergalerie Pessach - Fest der Befreiung
تصویر: AFP/Getty Images

سائنس اور صحافت میں تجسس، مشکل سوالات پوچھنے کی جرات اور جوابات کا شفافیت اور کھلے دل سے سامنا کرنے جیسی مشترک اقدار پائی جاتی ہیں۔ مگر ایسا ہر بار نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر بہت سے سائنس دان یا صحافی کئی مواقع پر بہت سے سوالات کا جان بوجھ کر جواب نہیں دیتے، تاہم آپ باآسانی سمجھ جاتے ہیں کہ اس وقت کسی خوف سے ان پر بات نہیں ہو پا رہی ہے۔ مثال کے طور پر انسان کی موجودگی کا سوال یا بہت سے مذہبی نوعیت کے حامل واقعات سے متعلق سوالات جیسے یسوع مسیح کا زندہ اٹھا لیا جانا۔

حضرت عیسٰی کا بلند ترین مجسمہ پولینڈ میں

یروشلم میں یسوع مسیح کا ’مقبرہ‘ کھول دیا گیا

ایسا اس لیے ہے کہ اس کا واضح انداز سے جواب دینا آسان نہیں۔ بہت سے ماہرین فلکیات ہیں، جو بگ بینگ کے دھماکے کی آواز تک سن رہے ہیں یا وہ صحافی جو مالیاتی منڈیوں سے لے کر دیگر سماجی مسائل کی وضاحت کرتے ہیں، مگر ان میں بہت کم ہوں گے، جو یسوع مسیح کے پانی پر چلنے یا پانچ ہزار افراد کو کھاناکھلانے یا زندہ اٹھا لیا جانے جیسے  ’معجزات‘ پر بات کرنے کی ہمت کریں گے۔

کیا یہ دلچسپ سوالات نہیں ہیں؟

مثال کے طور پر مردوں کو زندہ کر دینا۔ اس شخص کو زندگی بخش دی جانا، جس کے دل نے کام کرنا ختم کر دیا گیا تھا یا مدت سے کومے کا شکار فرد کو تندرست بنا دیا جانا۔ یہ ایسی کہانیاں ہیں، جنہیں آج کے جدید ترین طبی نظام کے باوجود ہم نہیں سمجھ سکتے۔ یا ایسا کون سا صدمہ ہوتا ہے، جو دماغ کو متاثر کر سکتا ہے یا جب وہ (زندہ کیے جانے والے افراد ) ہوش میں آتے ہیں، تو کیا اپنی بے ہوشی کے وقت کا کچھ حصہ یاد کر سکتے ہیں؟ مردے کو زندہ کر دینے والا معجزہ کسی صورت چھیڑا نہیں جا سکتا اور خصوصاﹰ جب وقت بھی ایسٹر کا ہو۔

سائنس دان بھی مذہبی ہو سکتے ہیں

میرے خیال میں ہم ایک گہرے سکوت کا شکار ہیں۔ ایک خوف ہے کہ ہمارا جواب کسی ’ایمان والے‘ کے جذبات کو ٹھیس پہنچا دے گا۔ مگر یہ انتہائی ضروری ہے کہ خاموشی توڑی جائے۔

بہت سے قدیم یورپی فلسفی نہایت مذہبی بھی تھے۔ وہ فطرت کو وضاحت کرنے جیسے سوالات کا تعاقب کرتے تھے کہ آیا اسے تخلیق کیا گیا یا یہ وقوع پذیر ہوئی، اس وقت بھی ان موضوعات پر بات کرنا ایک خطرناک کھیل تھا۔ بہت سے فلسفی مثلا گیوردانو برونو تو زندہ جلا دیے گئے۔

دوسری طرف کلیساء سائنسی تحقیق کے لیے معاونت بھی کرتا رہا اور جیسا کہ فلسفی اسٹیون نیڈلر نے ایک بار مجھے (تبصرہ نگار سے) کہا، ’’وہ ‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍ (کلیسائی رہنما) صرف تب میدان میں آتے تھے، جب کسی تحقیق کا کوئی ایسا نتیجہ سامنے آتا تھا، جو ان کی سوچ، یا ان کے عقیدے کے برخلاف ہوتا یا جو بائبل کے بتائے ہوئے ’سچ‘ سے متصادم ہوتا۔‘‘

اس میں ’زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے‘ جیسے نظریے کے خالق سائنس دان نیکولس کوپرنیکس بھی ہیں، جو خود مذہبی بھی تھے اور چرچ کے ساتھ ان کے مراسم بھی نہایت اچھے تھے، تاہم انہوں نے بتایا تھاکہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ پھر ان بڑے دماغوں میں گیلیلیو، نیوٹن، ڈیکارٹ اور لائبنز بھی شامل کر لیجیے۔ یہ تمام مذہبی لوگ بھی تھے۔

سافٹ ویئر انجینیئر کارل ڈریوس کو سن 2009 میں ماسٹر تھیسِس پر اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے ایک کمپوٹر ماڈل کے ذریعے سن 1250 قبل مسیح میں بحیرہء احمر کے دوٹکڑوں میں تقسیم ہو جانے کے واقعے کی بابت کہا کہ ایسا ممکنہ طور پر دریائے نیل کے ڈیلٹا پر جھیل تانیس میں زبردست طوفان کی وجہ سے ہوا ہو گا۔ تاہم اس کے جواب میں تخلیق پر یقین رکھنے والے مذہبی رہنما کین ہم نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں کہا تھا، ’’مافوق الفطرت واقعات کو فطری واقعات کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا۔‘‘ مذہب کے پروفیسر جم ویسٹ نے بھی اپنے ایک شکایتی خطاب میں کہا تھا کہ سائنس دان خواہ مخواہ بائبل کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

تبصرہ، ذوالفقار ابانی

اے ٹی/ اے بی