1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا جرمنی عالمی تنازعات میں اپنا فوجی کردار بڑھانا چاہتا ہے؟

امتیاز احمد11 جولائی 2016

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے دنیا جرمنی کو ’اقتصادی دیو لیکن سیاسی بونا‘ سمجھتی آ رہی ہے کیوں کہ ابھی تک جرمنی عالمی تنازعات میں اپنی فوجی طاقت استعمال کرنے سے گریز کرتا آیا ہے۔ لیکن کیا اب یہ صورتحال بدلنے کو ہے؟

https://p.dw.com/p/1JMs3
Deutschland Bundeswehr Karriere Plakat
تصویر: Imago/K. Hessland

تجزیہ کاروں کے مطابق جرمنی عالمی سیاست میں اپنا تشخص اور ساکھ تبدیل کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ نیٹو اور یورپی یونین کے فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنا فوجی دائرہ کار بھی وسیع کر رہا ہے۔

جرمنی میں بیرونی دنیا میں اس ملک کا عسکری کردار بڑھانے سے متعلق بحث کا آغاز بیس برس قبل ہوا تھا اور اس کا نتیجہ آئندہ بدھ تیرہ جولائی کے روز ایک ’وائٹ پیپر‘ کی صورت میں نکل رہا ہے، جسے جرمن وزارت دفاع کی طرف سے جاری کیا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق جرمنی عالمی سطح پر ایک نیا کردار ادا کرنے اور اپنے مزید فوجیوں کو بیرون ملک تعینات کرنے کے لیے تیار ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کےدوران جاری کردہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی دستاویز ہو گی۔ اس سے یورپی یونین کے مستقبل کے دفاعی عزائم کا بھی پتہ چلتا ہے۔

Türkei Von der Leyen in Incirlik
تصویر: picture alliance/dpa/Bundeswehr/J. Ohk

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس کے نامہ نگاروں نے اس ’وائٹ پیپر‘ کے مندرجات دیکھے ہیں، جن میں لکھا ہے، ’’جرمنی یورپ میں اپنا مرکزی کردار دیکھتا ہے، یہ عالمی سطح پر بھی اچھے روابط رکھنے والا ملک ہے اور نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ جرمنی یہ ذمہ داری لینے اور موجودہ اور مستقبل کے سکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

جرمنی اپنے نازی ماضی کی وجہ سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسا 1994ء میں پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ جرمنی کی اعلیٰ ترین ملکی عدالت نے جرمن فوجیوں کو کثیر القومی امن مشنوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔

اس کے بعد سے جرمنی متعدد جنگ زدہ علاقوں میں اپنے فوجی تعینات کر چکا ہے۔ ان میں افغانستان اور مالی جیسے ممالک بھی شامل ہیں لیکن جرمنی کو اس کے اتحادی ملکوں نے سن 2011ء میں اس وقت بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جب اس نے لیبیا میں نیٹو کی طرف سے فوجی مداخلت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمن صدر یوآخم گاؤک اور وزیر دفاع اُرزلا فان ڈئیر لاین متعدد مرتبہ دلائل دے چکے ہیں کہ جرمنی کو بیرونی ممالک میں مزید فعال عسکری کردار ادا کرنا چاہیے۔

حالیہ کچھ عرصے سے جرمنی داعش کے خلاف بھی ’غیر جنگی کردار‘ ادا کر رہا ہے۔ جرمنی نے اپنے اتحادیوں کو جاسوس اور فضا میں ایندھن فراہم کرنے والے طیارے فراہم کر رکھے ہیں۔ جرمنی ہتھیار برآمد کرنے والا ایک اہم ملک بھی ہے اور حال ہی میں اس نے عراق کے جنگ زدہ علاقے میں داعش کے خلاف لڑنے والی کردوں کی پیش مرگہ فورسز کو بھی ہتھیار فراہم کیے تھے۔

جرمن حکومت وفاقی فوج کے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جبکہ آئندہ سات برسوں کے دوران بیس ہزار نئی بھرتیاں بھی کی جائیں گی۔ اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے جرمنی نے اس ’وائٹ پیپر‘ میں زور دیا ہے کہ وہ ٹرانس اٹلانٹک اور یورپی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے کام کرے گا۔