1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن کا دورہ جرمنی اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی

23 ستمبر 2018

ترک صدر رجب طیب ایردوآن اپنے ایک سرکاری دورے پر جرمنی پہنچ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی ہے، تاہم ایردوآن کا کہنا ہے کہ اس دورے میں وہ تمام تناؤ ’مکمل طور پر ختم‘ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/35MZF
Türkei Recep Tayip Erdogan Tisch Tafel Bildausschnitt
تصویر: picture-alliance/AA/A. Dumanli

اتوار کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک روانگی سے قبل صحافیوں سے بات چیت میں ایردوآن نے کہا کہ ان کے دورہ جرمنی میں دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان تعلقات، اقتصادی تعاون، ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت کی درخواست اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے موضوعات پر بات چیت ہو گی۔

قطر کی طرف سے ترک صدر کو 500 ملین ڈالر کے جہاز کا تحفہ

جرمن، ترک تعلقات میں پیشرفت

ایردوآن جمعرات کے روز جرمنی پہنچیں گے۔ وہ جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کی دعوت پر جرمنی کا دورہ کر رہے ہیں، جب کہ جرمنی میں وہ چانسلر انگیلا میرکل سے بھی دو بار ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ ایردوآن مغربی جرمن شہر کولون میں ایک مسجد کا افتتاح بھی کریں گے۔

یہ بات اہم ہے کہ متعدد جرمن شہریوں کی گرفتاری کی وجہ سے جرمنی اور ترکی کے درمیان تعلقات حالیہ کچھ عرصے میں شدید خراب ہوئے ہیں۔ جرمن رہنماؤں کی جانب سے ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں، جب کہ متعدد جرمن رہنما ایردوآن حکومت پر شدید نوعیت کی تنقید بھی کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں ایردوآن کے دورہ جرمنی کے موقع پر بڑے احتجاجی مظاہرے بھی متوقع ہیں۔

جرمنی میں اس دورے سے قبل ہی، متعدد مقامات پر ’ایردوآن خوش آمدید نہیں‘ کے نعرے کے ساتھ مظاہرے ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سینکڑوں افراد نے جرمن شہر برلن میں مظاہرہ کیا، ان مظاہروں میں کرد تنظیمیں بھی شریک تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ جمعے اور ہفتے کو برلن اور کولون شہر میں بڑے مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔

ادھر صدر ایردوآن کے دورہ جرمنی سے قبل ایک اور جرمن شہری کو رہا کر دیا گیا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے رہا ہونے والے جرمنی شہری سے متعلق تاہم تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ جولائی 2016ء میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد 35 جرمن شہریوں کو دہشت گرد تنظیموں کی رکنیت کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں وہ افراد بھی شامل تھے، جن پر الزام تھا کہ وہ گولن تحریک کے ساتھ منسلک ہیں۔ ترک حکام جلاوطن رہنما فتح اللہ گولن پر ناکام فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرتے ہیں، جب کہ گولن ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

ارے! یہ ترک شہری آئی فونز کیوں توڑ رہے ہیں؟

ترک صدر کے دورے سے قبل تین ترک وزراء جرمنی پہنچے ہیں، جن میں ایردوآن کے داماد اور وزیرخزانہ بیرات البراک بھی شامل ہیں۔ برلن میں البراگ کے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’ہم تناؤ کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور جرمن ترک تعلقات کی ایک نئی شروعات کر رہے ہیں۔‘‘

ع ت، ع الف (روئٹرز، اے ایف پی)