1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمارا مقصد: آزاد ذہنوں کے لیے غیرجانبدارانہ معلومات

22 ستمبر 2020

ہم دنیا بھر میں غیرجانبدارانہ صحافت اور آمر حکمرانوں کی بے خواب راتوں کے حامی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3iqQT
Insomnia | Free Speech | Campaign
تصویر: DW

دنیا بھر میں جمہوریت خطرے میں ہے اور آزادی اظہار پر حملے ہو رہے ہیں۔ جن  ممالک میں خبریں اور معلومات با اثر افراد کے قابو میں ہیں، وہاں شہریوں کو برے امکانات کے چناؤ پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے اس بات کو اپنی ذمہ داری بنا لیا ہے کہ ہم غیر جانبدارانہ معلومات اور آزادی اظہار کے ساتھ ساتھ 180 ممالک میں جمہوری اقدار کو فروغ دیتے ہوئے آمر حکمرانوں کا مقابلہ کریں گے۔ آمر حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں اڑانے کے لیے۔ 

ہم کس طرح آزادی اظہار کا ساتھ دے سکتے ہیں؟

ڈی ڈبلیو کی کوشش ہے کہ بحرانوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین اور موجودہ حالات کو بہتر بنانے کی خاطر ان موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے آزادی اظہار اور ذرائع ابلاغ کی آزادی سے جڑے ہوئے پیچیدہ امور کا احاطہ کیا جائے۔

دنیا کے تمام خطوں سے رپورٹوں، انتہائی سرگرم افراد، تعلیمی شعبے کے ماہرین، فنکاروں، کارٹونسٹوں اور مصنفین کے انٹرویوز کے ذریعے ہماری نظر ہمیشہ ان مسائل پر رہتی ہے، جو کسی نہ کسی طرح صحافت اور آزادی رائے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

سن 2015 سے ڈی ڈبلیو ایسے افراد کی خدمات کے اعتراف میں ہر سال فریڈم آف سپیچ ایوارڈ دے رہا ہے، جو آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ اعزاز پانے والوں میں مقید بلاگرز اور بے باک صحافیوں کے علاوہ ایسی شخصیات بھی شامل ہیں، جو انفرادی سطح پر میڈیا کی آزادی کے لیے کام کر رہی ہیں۔

پیغام کی سب تک ترسیل

ماضی کے مقابلے میں آج کل دنیا بھر میں لوگ زیادہ آسانی سے معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرے سے رابطہ کرنا بھی آسان ہو گیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا میں کئی جگہیں ایسی ہیں، جہاں ایسے افراد کو سزائیں دی گئیں، جنہوں نے تنقیدی مواد شائع کیا۔ ایسے مقامات بھی ہیں، جہاں معلومات تک آزادانہ رسائی پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ڈی ڈبلیو نے سینسر شپ کے خلاف کوششوں کو اپنا بنیادی اصول بنا رکھا ہے۔ ساتھ ہی یہ ادارہ ہر جگہ زیادہ سے زیادہ انسانوں تک وہ معلومات پہنچانے کی مستقل کوششیں بھی کر رہا ہے، جن کی انہیں اپنے اور اپنے معاشروں کو متاثر کرنے والے مسائل کو سمجھنے کے لیے ضرورت ہے۔

Insomnia | Free Speech | Campaign
تصویر: DW

بہت سے ممالک میں بنیادی ڈھانچے پر حکومتی کنڑول کی وجہ سے معلومات یا خبروں کو سینسر یا پھر اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دیا جاتا ہے۔ اسی لیے ڈی ڈبلیو نے ہمیشہ سینسر شپ کی دھوکا دہی کے حل اور لوگوں تک معلومات پہنچانے کا کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر جن ممالک میں حکومتوں نے آزادانہ معلومات تک رسائی پر قدغنیں لگا رکھی ہیں، وہاں کے شہری بھی او ٹی ایف (Open Technology Fund) اور ٹور پروجیکٹ (Tor Project) کے ذریعے ڈی ڈبلیو کے مواد تک محفوظ اور مخفی انداز میں رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے ایک 'مرر پراکسی‘ انسٹال کر رکھی ہے، جس کے ذریعے ڈی ڈبلیو ڈاٹ کوم پر موجود آن لائن مواد تک ٹور نیٹ ورک کے ایک ویب ایڈریس کے توسط سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ٹور ( The Onion Routing) کے ذریعے جن ویب سائٹس تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے انہیں Onion ایکسٹینشن کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے۔ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے فائر فوکس ٹور کی طرح کا ایک خصوصی براؤزر درکار ہوتا ہے۔ ڈوئچے ویلے کےعلاوہ بہت کم ویب سائٹس ہیں، جو اونیئن ایڈریس استعمال کرتی ہیں۔ ان میں نیو یارک ٹائمز اور بی بی سی بھی شامل ہیں۔

گزشتہ دہائی کے دوران سینسر شپ سے بچنے کے لیے ڈی ڈبلیو  Pasiphon  نامی ایک نظام سے بھی استفادہ حاصل کر رہا ہے، جو مختلف پراکسی سرور (صارف اور آن لائن سورس کے درمیان) نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے کام کرتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے چین اور ایران جیسے ممالک کے صارفین کی غیر جانبدارانہ اور مصدقہ معلومات تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو نے ایک پیغام دیا ہے: ڈی ڈبلیو دنیا بھر کے تمام صارفین تک آزاد انٹرنیٹ اور غیر جانبدارانہ، معیاری خبریں اور معلومات پہنچانے کی کوششیں کبھی ترک نہیں کرے گا۔

تنوع سے جنم لینے والی مکالمت

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عرب دنیا میں ذرائع ابلاغ کا منظر نامہ اور اس میں عوامی شرکت ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئے ہیں، اور صرف نوجوانوں میں ہی نہیں۔ سب کچھ ایک ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے، چونکہ لوگ ماضی کے مقابلے میں تکنیکی طور پر بات چیت اور بحث و مباحثے کے لیے زیادہ آزاد ہیں۔ ایپس، سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کے ساتھ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ خود کو بحث سے دور رکھیں۔

جعفر ٹاک اس صورتحال کو  تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ ٹاک شو تمام لوگوں کو ایک آواز دیتا ہے، ان کو بھی، جن کی آواز عرب دنیا میں نہیں سنی جاتی اور ان موضوعات کے ساتھ جو عام طور پر دیگر چینلوں پر نہیں دکھائے جاتے۔ اس میں شریک مہمان سماجی اور سیاسی موضوعات پر سیر حاصل اور تنقیدی گفتگو بھی کرتے ہیں۔ یہ مہمان مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف نظریات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہر شو کے آخر میں اسٹوڈیو میں موجود حاضرین اور ناظرین کو یہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنی رائے دیں کہ ان کی نظر میں کون سا مہمان انہیں بہتر انداز میں قائل کر سکا۔ یہ کسی ایک موضوع پر مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ اپنی رائے شیئر کر سکیں اور مکالمت کی ابتدا بھی کر سکیں۔

Jaafartalk Studio in Beiru
تصویر: DW/H. Baydoun

جعفر ٹاک عرب دنیا میں پائے جانے والے تنوع کی عکاسی کرنے والا ایک انٹر ایکٹو ٹاک شو ہے۔ ٹاک شو کے میزبان جعفر کریم اس خطے سے تعلق رکھنے والے ایسے مہمانوں کو مدعو کرتے ہیں، جو شفاف اور سرگرم انداز میں مختلف نظریات پر بحث کرتے ہیں، جو تحقیق، حقائق اور اعداد و شمار کی مدد سے ایک واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ آپ جعفر ٹاک کے تازہ ترین پروگرام انسٹاگرام، فیس بک اور یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔

مسائل کا فہم

کیا لبنان کے شہری یوکرائن کے باسیوں کے مقابلے میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنی رائے کا اظہار زیادہ کرتے ہیں؟ ڈی ڈبلیو اکیڈمی کے پروجیکٹ  The#speakupبیرومیٹر کے ذریعے ان منتخب ممالک میں ڈیجیٹل شراکت داری، آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کے مابین تعلق کو جانچا جاتا ہے، جن میں ڈی ڈبلیو اکیڈمی مقامی پارٹنر اداروں کے ساتھ مل کر ذرائع ابلاغ کی ترقی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔

ان ممالک میں ڈیجیٹل شراکت داری کی صورتحال کا جائزہ لینے اور نئے امکانات وخطرات کی نشاندہی کے مقصد کے تحت  #speakup Theبیرومیڑ میڈیا ڈویلپمنٹ تنظیمیں، این جی اوز، صحافی اور اس صنعت سے منسلک دیگر  افراد ڈیجیٹلائزیشن، آزادی اظہار اور معلومات تک آزادانہ رسائی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات میں مصروف ہیں۔

آزادی صحافت کا اشاریہ

آپ کے ملک میں ذرائع ابلاغ کتنے آزاد ہیں؟ آزادی صحافت کا اشاریہ یا میڈیا فریڈم نیویگیٹر ذرائع ابلاغ کی آزادی کے بارے میں مختلف جائزے مہیا کرتا ہے۔ آپ اس کی مدد سے دنیا کے نقشے پر موجود ہر ملک میں آزادی صحافت سے متعلق اعداد و شمار اور  اس کے پس پردہ تمام معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

غلط خبروں کے بہاؤ میں معتبر ہونا

ترکی میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے بی بی سی، فرانس 24 اور وائس آف امریکا کے تعاون سے ترک زبان بولنے والے افراد کے لیے ایک یو ٹیوب چینل بنایا ہے، جو انہیں ان کی رائے قائم کرنے کے لیے معتبر اور مصدقہ معلومات مہیا کرتا ہے۔

90+ یو ٹیوب چینل کا نام ترکی کے لیے بین الاقوامی ٹیلی فون کوڈ کو دیکھتے ہوئے منتخب کیا گیا ہے۔ اس چینل کے توسط سے آزادی اظہار اور آزادی رائے کا احترام کرتے ہوئے کثیر تعداد میں موضوعات پر مختلف نظریات کے ساتھ ساتھ غیر جانبدارانہ اور قابل بھروسہ معلومات مہیا کی جاتی ہیں۔ اس چینل پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی  ویڈیوز کو جرمن زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا اور انہیں بھی دس لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا گیا۔ 90+  میں ایسے موضوعات بھی شامل کیے جاتے ہیں، جنہیں اکثر  ترکی کے مقامی میڈیا میں جگہ نہیں دی جاتی، مثال کے طور پر مہاجرین، ہم جنس پرستی، ایل جی بی ٹی کیو اور حقوق نسواں۔ ان مسائل کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیتے ہوئے 90+ ایک اہم اور تبدیلی کے مراحل سے گزرتے ہوئے ملک کی روزمرہ زندگی میں زیادہ توازن کو یقینی بنا رہا ہے۔