1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
کھیلقطر

کھیل میں سیاسی مداخلت اور فیفا کا دوہرا معیار، تبصرہ

12 دسمبر 2022

قطر میں ورلڈ کپ کے موقع پر فلسطینی جھنڈے اور فلسطینی علامات موجود رہیں۔ تاہم فیفا نے صرف ’رینبو آرم بینڈز‘ پر پابندی لگائی لیکن فلسطینی جھنڈے اور علامات کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا۔

https://p.dw.com/p/4Kon9
Fußball-WM Katar | Marokko v Spanien | Siegesfeier mit Palästina-Flagge
تصویر: Martin Meissner/AP/picture alliance

قوانین صرف اس وقت ہی فائدہ مند ہوتے ہیں، جب ان کا یکساں طور پر اطلاق کیا جائے۔ مشرق وسطیٰ یا فلسطینی علاقوں کے مستقبل کے حوالے سے آپ کا کوئی بھی نقطہ نظر ہو لیکن فلسطین کا جھنڈا اسے ورلڈ کپ کے موقع پر فٹ بال پچ پر لانا یقینا ایک سیاسی عمل ہے۔

مراکش کے کھلاڑی قطر میں اسپین کے خلاف آخری سولہ کے حتمی میچ اور اس سے پہلے گزشتہ میچوں میں بھی فلسطین کا جھنڈا لے کر آئے جبکہ عرب دنیا کے پہلے ورلڈ کپ میں اسٹیڈیم کے اندر اور باہر فٹ بال کے پرستاروں نے آزاد فلسطین کے پیغامات بھیجے۔

یقیناﹰ فیفا کے لیے اس کو روکنا مشکل ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے عرب دنیا میں بہت حساسیت ہے اور اس حوالے سے سختی ایک تنازعہ کھڑا کر دیتی لیکن فیفا نے اس ٹورنامنٹ میں یہ کہہ کر اپنے لیے خود ایک مشکل کھڑی کر لی ہے کہ فٹ بال میں سیاسی بیانات کی اجازت نہیں ہے۔ 'ون لو ملٹی کلرڈ آرم بینڈ‘ کے حوالے سے اٹھنے والا تنازع اس ورلڈ کپ کی سب سے بڑی اسٹوری تھی۔

سات یورپی ٹیموں کے کپتان عدم یکسانیت کی حمایت میں یہ پہننا چاہتے تھے۔ رینبو کلرز کو ہم جنس پرستوں کی نشانی سمجھا جاتا ہے لیکن ہم جنس پرستی کی قطر میں ممانعت ہے۔ تو فیفا نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کھلاڑیوں کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کی جائے گی اور ٹیموں نے یہ سن کر ہتھیار ڈال دیے۔

کھیل میں سیاست کی عدم مداخلت فیفا کا وہ مسلمہ نعرے تھا، جس کے لیے جانی انفانتینو جرمنی اور انگلینڈ جیسی بہترین فیڈریشنز کے خلاف بھی لڑنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن وہ اپنے قطری میزبانوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی لیے فلسطینی جھنڈے کے حوالے سے ڈوئچے ویلے اور دوسرے میڈیا کی طرف سے رابطہ کرنے کے باوجود بھی فیفا نے کچھ نہیں کہا۔

گورننگ باڈی کو اتنا وقت مل گیا کہ اس نے جانی انفانتینو کی ایک ویڈیو اپ لوڈ کی، جس میں انہوں نے اس کو اب تک کھیلے جانے والے سارے اسٹیج میں بہترین گروپ اسٹیج قرار دیا اور یہ ایسے وقت میں کہا گیا، جب آخری سولہ کا میچ ابھی ابھی ختم ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر ورکر کی دل دہلا دینے والی موت پر بھی تبصرہ کیا گیا، جو گروپ اسٹیج کے ایک سعودی شہری کے ہوٹل میں کام کر رہا تھا۔

لیکن فیفا اور قطر فلسطینی مسئلے پر بول نہیں رہے ہیں کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگر رینبو آرم بینڈز پہننا سیاسی عمل ہے تو آزاد فلسطین کا مسئلہ بھی سیاسی ہے لیکن وہ اس کو روکنا نہیں چاہتے کیونکہ اس سے عربوں میں اشتعال پھیل جائے گا۔

فیفا نے فلسطین کو اس کے جھنڈے کے ساتھ رکنیت 1998ء میں دی تھی۔ وہ ورلڈ کپ کوالیفائرز ایشین فٹبال کنفیڈریشن میں کھیلتا ہے جبکہ کہ اسرائیلی یو ای ایف اے میں کھیلتے ہیں تاکہ اس کو عرب ریاستوں سے علیحدہ رکھا جا سکے۔

اگر فیفا کچھ کہتا تو شاید وہ اس بات کی نشاندہی کرتا کہ فلسطینی فیفا کے ممبر ہیں اور فلسطینی جھنڈے کو استعمال کرنا سیاسی عمل نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ مراکش کی ٹیم مراکش کا جھنڈا اٹھائے یا کچھ عجیب وغریب وجوہات کی بنیاد پر ایل سیلواڈور کا جھنڈا اٹھائے۔ فیفا اس کو سیاسی نہیں سمجھے گا کیونکہ یہ فیفا کے ایک رکن ملک کا جھنڈا ہے۔ فیفا کی گورننگ باڈی یہ بھی بہانہ کر سکتی ہے کہ اس کی انضباطی کمیٹی آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ لیکن رینبو آرم بینڈز کے مسئلے پر یہ غیر جانبداری نظر نہیں آئی کیوں کہ اس مسئلے میں اوپر سے دباؤ آ رہا تھا۔

اگر فیفا انتظامیہ کہتی ہے کہ سیاسی پیغام بازی کی فٹ بال میں بالکل اجازت نہیں ہے تو یہ بالکل درست ہے۔ لیکن پھر اس حوالے سے پابندی ہر ایک پر ہونی چاہیے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے کہ یہ ایک فریق کے لیے ایک قانون ہو اور دوسرے کے لیے کوئی دوسرا قانون۔ اگر قانون کو نافذ نہیں کیا جا سکتا تو بہتر ہے اس قانون کو ترک کر دیا جائے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔