1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ ویکسین ’حرام‘ نہیں، برطانوی مساجد میں اعلانات

23 جنوری 2021

برطانیہ کی مسلم کمیونٹی میں کووڈ ویکسین کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے کی خاطر ملک بھر کی مساجد کے امام بھی فعال ہو گئے ہیں۔ بالخصوص جمعہ نماز کے خطبوں میں اس ویکسین سے جڑی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3oKOv
Schottland Islamisches Zentrum in Glasgow
تصویر: picture-alliance/empics/D. Lawson

برطانیہ کی تقریباﹰ تمام مساجد میں جمعہ نماز کے خطبوں میں مسلم کمیونٹی کو بتایا جا رہا ہے کہ کووڈ انیس کی ویکسین محفوظ ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اسے لگوانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مساجد اور اماموں کی قومی تنظیم ایم آئی این اے بی کے چیئرمین قاری قاسم نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ ایک خصوصی مہم کے تحت ملک بھر کے مسلمانوں میں کووڈ ویکسین کے بارے میں درست معلومات پھیلانے کا انتظام کیا گیا ہے۔

قاری قاسم کے مطابق وہ پر اعتماد ہیں کہ برطانیہ میں جن دو ویکسینز کی منظوری دی گئی ہے، وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق لگوائی جا سکتی ہیں۔ برطانوی حکومت نے اکسفورڈ ایسٹرا زنییکا اور فائزر کی ویکسین کو محفوظ قرار دیتے ہوئے، انہیں عوامی استعمال کے لیے منظور کر لیا ہے۔ قاری قاسم کے مطابق مسلم کمیونٹی میں اگر اس حوالے سے کوئی ہچکچاہٹ ہے تو اس کی وجہ لاعلمی اور غلط خبروں کا پھیلایا جانا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:  انڈونیشیا: علماء کونسل کا کورونا ویکسین کے متعلق فتوی

برطانیہ اس عالمی وبا کی وجہ سے یورپ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں پچانوے ہزار افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تاہم ایک حکومتی مطالعہ کے مطابق تارکین وطن پس منظر کے حامل نسلی گروہوں میں کووڈ ویکسین کے بارے میں متعدد اقسام کے خدشات پائے جاتے ہیں۔

اس مطالعے کے مطابق برطانیہ میں سکونت پذیر تارکین وطن پس منظر کے حامل 72 فیصد افراد ویکسین لگوانے کے حق میں نہیں یا وہ اس بارے میں شک کا شکار ہیں۔ ان میں سے 42 فیصد کا تعلق پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے۔

اس کمیونٹی کو خدشہ ہے کہ یہ ویکیسن حرام ہے کیونکہ اس میں الکحول یا خنزیر کا مواد استعمال کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں مقیم مسلم کمیونٹی دو اعشاریہ آٹھ ملین نفوس پر مشتمل ہے، جن میں سے زیادہ تر  الکحول اور خنزیر کے مواد سے تیار شدہ مصنوعات کا استعمال نہیں کرتے۔

لندن کے نواح میں پریکٹس کرنے والی ڈاکٹر نگہت عارف کا کہنا ہے کہ ایسی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں کہ یہ ویکسین برطانیہ میں مقیم اقلیتی گروہوں کے افراد میں غیر متوقع  نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی خاطر وہ مختلف قسم کی مہموں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستانی نژاد کئی ڈاکٹروں نے اس ویکسین کو لگوانے کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں اردو زبان میں بنائی گئی ویڈیوز شیئر کی ہیں اور ساتھ کہا ہے کہ یہ ویکسین خطرناک نہیں ہے اور ضروری ہے کہ اس عالمی وبا کو شکست دینے کی خاطر دیگر افراد بھی اس ویکسین کو لگوائیں۔

یہ بھی پڑھیے: بھارت: کورونا وائرس کی ویکسین حلال ہے یا حرام؟

ثمرہ افضل نے بھی یہ ویکسین لگوانے کے بعد ایسا ہی ایک پیغام ٹوئیٹ کیا۔ ان کے فالوورز کی تعداد پینتیس ہزار ہے۔ ثمرہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ بہت سے لوگوں نے انہیں کہا کہ وہ یہ ویڈیو انہیں بھی ارسال کریں تاکہ یہ پیغامات ایسے لوگوں کو اِن باکس کیے جا سکیں، جو ان ویکسینز کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

قاری قاسم کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ میں بسنے والی دیگر کمیونٹیوں کے مقابلے میں مسلم برادری میں ویکسینز لگوانے کی شرح کم رہی تو اس طرح ملک میں 'اسلامو فوبیا‘ پھیلنے کے امکانات بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ طبی اہلکاروں کے ساتھ مل کر برطانیہ میں مسلم کمیونٹی میں پائے جانے والے ان غلط خدشات کو دور کر دیا جائے۔

ع ب / ع آ (اے ایف پی)

سخت حالات میں ویکسینیشن، مجبوری یا احساس ذمہ داری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں