کورونا کے سائے تلے بھارتی پارليمان کا اجلاس
14 ستمبر 2020کورونا وائرس کی وبا، چین کے ساتھ سرحد پر کشیدگی اور ملکی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے تناظر ميں شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے لیے کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں سے بعض پر اپوزیشن کو شدید اعتراضات ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت ميں پارليمان کی خصوصی نشستوں کو شناخت کے ليے موسم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اسی سلسلے ميں رواں اجلاس کا نام مون سون سيشن ہے۔
پارلیمان کے اندر داخل ہونے سے قبل اراکین نے ڈیجیٹل طریقے سے حاضری درج کرائی۔ اراکین کے جسم کا درجہ حرارت جانچنے کے لیے تھرمل گن اور تھرمل اسکینر استعمال کیے جا رہے ہیں، مختلف مقامات پر ٹچ لیس سینیٹائزر نصب ہیں اور ضرورت پڑنے پر ایمرجنسی میڈیکل ٹیم اور ایمبولنسوں کو تیار رکھا گیا ہے۔ سوشل ڈسٹینسنگ يا سماجی سطح پر فاصلہ برقرار رکھنے کی شرط کی وجہ سے چند ارکان پارلیمان کو مرکزی ہال میں جبکہ ديگر کو مہمانوں کی گیلری میں بٹھایا گیا۔ تمام اراکین کے سامنے شیشے کی شیلڈز لگی ہوئی ہيں۔
سترہ ارکان پارليمان کورونا ميں مبتلا
پارلیمان کا اجلاس شروع ہونے سے قبل اراکین پارلیمان کا کورونا ٹیسٹ کرایا گیا، جس میں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے سترہ اراکین کے کورونا ٹيسٹ مثبت آئے۔ ان میں سے بارہ کا تعلق حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سے، دو کا وائی آر ایس کانگریس سے ہے جبکہ شیو سینا، ڈی ایم کے اور آر ایل پی کے ایک ایک رکن ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔
نئے ضوابط کے تحت اراکین کی رپورٹ منفی آنے کی ہی صورت ميں انہیں پارلیمان کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ حکومتی ہدایات کے مطابق پينسٹھ برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی اجتماعی میٹنگز میں شرکت پر پابندی ہے۔ ایسے میں یہ عور طلب معاملہ ہے کہ راجیہ سبھا کے ان 97 اراکین کا کیا ہوگا، جن کی عمریں پينسٹھ برس سے زیادہ ہیں اور ان ميں سے بھی بيس کی عمريں اسی برس سے زیادہ ہيں۔ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی بھی ان میں شامل ہیں۔
کورونا سے اب تک سات وفاقی وزراء سمیت دو درجن کے قریب اراکین پارلیمان متاثر ہو چکے ہیں اور ایک رکن کی موت بھی ہو چکی ہے۔ جب کہ ریاستی اسمبلیوں کے درجنوں اراکین کورونا سے متاثر ہيں اور کئی ہلاک ہو چکے ہیں۔
وقفہ سوال ختم کرنے پر سوال
حکومت نے پارلیمان کے اجلاس کے دوران 'وقفہ سوالات‘ کو ختم کر دیا ہے۔ اس وقفے کے دوران کوئی بھی رکن کسی بھی موضوع پر سوالات پوچھ سکتا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کا جواب دینے کے لیے ضروری معلومات کے حصول میں کئی افراد کو کام کرنا پڑتا تھا اور کورونا کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے اس لیے وقفہ سوالات کو ختم کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن نے الزام لگایا کہ حکومت دراصل بعض اہم سوالات کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے اور ایسا کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ تاہم پارلیمانی امور کے وزیر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بحث سے بھاگ نہیں رہی ہے، یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے اور حکومت سے سوالات پوچھنے کے اور بھی مختلف طریقے ہیں۔
اٹھارہ دنوں تک چلنے والے اس مون سون اجلاس کے دوران ہفتہ اور اتوار کے روز بھی ایوان کی کارروائی جاری رہے گی۔ اس اجلاس میں حکومت بائيس مختلف بل پیش کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے ان میں سے کم از کم چار کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔