1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا کے دنوں میں محبت: جرمن ڈینش سرحد پر ملاقات، ہر روز

30 مارچ 2020

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے جہاں بہت سی تکلیف دہ خبریں ملتی ہیں، وہیں پر کچھ خبریں دل کو گرما دینے والی بھی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر کورونا کے دنوں میں محبت سے متعلق ہے: ایک ملاقات جو روز جرمن ڈینش سرحد پر ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3aCTE
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Molter

اِنگا ڈنمارک میں رہتی ہیں اور کارسٹن جرمنی میں۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث شینگن زون کے رکن ممالک ہونے کے باوجود جرمنی اور ڈنمارک کی قومی سرحدیں بند ہیں اور عوامی آمد و رفت معطل ہے۔

اِنگا اور کارسٹن کو پہلے آپس میں ملنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ اب لیکن سرحدی بندش نے دیوار بننا چاہا، تو پچاسی سال اِنگا اور نواسی سالہ کارسٹن نے ایسی کسی بھی جبری دوری اور مجبوراﹰ علیحدگی کو تسلیم کرنے سے عملاﹰ انکار کر دیا۔

یہ جرمن ڈینش جوڑا اب بھی سرحدی بندش کے باوجود ہر روز ملتا ہے، دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد پر۔ لیکن ایک دوسرے کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اور اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں کی ہدایات کے عین مطابق سماجی طور پر ایک دوسرے سے فاصلہ رکھتے ہوئے بھی۔

اِنگا اور کارسٹن کو دنیا کے کروڑوں دیگر انسانوں کی طرح اس بات کی خبر نہیں کہ کب کورونا وائرس انہیں بھی اپنا شکار بنا لے۔ لیکن وہ اپنے طور پر بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ قبول کرنے پر تیار نہیں کہ ان کے مابین کوئی حقیقی فاصلہ آ جائے۔ اِنگا اور کارسٹن روز ایک دوسرے کو سرحد پر ملتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ایک دوسرے کے لیے کھانا، بسکٹ اور کافی بھی لے آتے ہیں۔ پھر کھانا کھایا جاتا ہے اور کافی پی جاتی ہے۔

Seniorenpaar trifft sich an der Grenze
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Molter

کارسٹن ہانسن نے اپنی اس روزانہ ملاقات کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب وہ اِنگا راسموسن کو ملتے ہیں، تو دونوں ہی چاہے کافی پیئیں یا اس جرمن ڈینش سرحدی علاقے میں بنائی جانے والی روایتی شراب، دونوں ہی 'چِیئرز‘ کہتے ہوئے خوشی سے ایک دوسرے کو ایک ہی بات کہتے ہیں: ''محبت کے نام!‘‘

اِنگا راسموسن نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا سے پہلے جب وہ آپس میں ملتے تھے تو یہ ملاقات اس طرح سرحد پر نہیں ہوتی تھی، ''ہم ملاقات کے آغاز پر آپس میں گلے بھی ملتے تھے اور ایک دوسرے کے بوسے بھی لیتے تھے۔‘‘

 اب لیکن اِنگا اور کارسٹن اپنی ملاقات کے آغاز پر ایک دوسرے کو دیکھ کر بس مسکرا دیتے ہیں۔ نہ گلے ملنا اور نہ ایک دوسرے کا کوئی بوسہ، ''ہم ملاقات کے آغاز پر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں اور پھر گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔‘‘

'محبت سرحدیں تسلیم نہیں کرتی‘

جب سے جرمن ڈینش سرحد بند ہوئی ہے، کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ اِنگا اور کارسٹن کی ملاقات نہ ہوئی ہو۔

کارسٹن شمالی جرمنی میں نارتھ فرِیزیا کے علاقے کے رہنے والے ہیں اور اِنگا جنوبی ڈنمارک میں گالےہُوس کے قصبے کی رہائشی ہیں۔ ان دنوں ان کی ملاقات دونوں ممالک کے مابین 'آفَین ٹوفٹ‘ کے مقام پر مشترکہ سرحدی گزرگاہ پر ہوتی ہے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کارسٹن اس ملاقات کے لیے ہر سہ پہر اپنی ای بائیک پر سرحد تک جاتے ہیں جبکہ اِنگا اپنی گاڑی چلا کر وہاں پہنچتی ہیں۔ اِنگا اور کارسٹن کی پہلی ملاقات دو سال قبل ہوئی تھی۔

پھر جب 'دلوں کے رشتے نے حدت‘ پکڑی، تو گزشتہ برس تیرہ مارچ سے لے کر اب تک کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ دونوں آپس میں نہ ملے ہوں اور انہوں نے کئی کئی گھنٹے اکٹھے نہ گزارے ہوں۔

کارسٹن کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں اِنگا کہتی ہیں، ''میں ویسے تو ہمیشہ ہی کارسٹن کے ساتھ ہوتی ہوں۔ لیکن ہماری دو ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو، تب وقت بہت ہی سست رفتار ہو جاتا ہے۔ انسان اکیلا ہو تو وقت بہت ہی مشکل سے گزرتا ہے۔‘‘

میلِسابرونرزُم، انکیتا مُکھوپادیے (م م / ع ا)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں