1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

کورونا کی عالمی وبا اور’ دی گریٹ ریزیگنیشن‘

29 اکتوبر 2021

کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے ملازمت اور زندگی کے بیچ  توازن کچھ بگڑ سا گیا ہے، بالخصوص امریکا میں تو حال کچھ برا ہی ہے۔ یہ میرا نہیں بلکہ دنیا بھر کے محققین کا کہنا ہے۔

https://p.dw.com/p/42L3a
DW Urdu Blogerin Sana Batool
تصویر: Privat

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سن2021 میں لوگوں نے اپنی جابز سے ریکارڈ تعداد میں استعفے دیے ہیں۔ امریکا کی ٹیکساس اے اینڈ ایم  یونیورسٹی سے وابستہ آرگنائزیشنل سائیکالوجسٹ انتھونی کلوٹز نے امریکا اور متعدد یورپی ممالک میں لوگوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر استعفے دیے جانے کو 'دی گریٹ ریزگنیشن‘  کا نام دیا ، جو اب مستعمل ہو گیا ہے۔

جنگیں، معاشی بحران، قدرتی آفات اور  وبائی امراض کے نتیجے میں جہاں ملازمت کے بازار میں تنگی آتی ہے، وہیں ملازمتوں کے مواقع بڑھ بھی جاتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی افراتفری، معاشی مسائل اور نفسیاتی الجھنوں سے تنگ آکر لوگ بہتر سے بہتر  زندگی اور بہتر ملازمت کی تلاش میں جت جاتے ہیں۔

اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری جابز ہمیں ہماری ذات کے مکمل ہونے کا یا کامیابی و قابلیت کا احساس فراہم کرتی ہیں۔ جس کی وجہ ہم آگے بڑھنے کہ لیے بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب معاشرہ کسی نوعیت کہ بحران سے گزر رہا ہو، نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں معاشرے میں اپنے اسٹیٹس اور مستقبل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔

 دی گریٹ ریزیگنیشن کی بنیادی وجہ یہی ہے یا کوئی اور؟

ماہرین معاشیات اب بھی تحقیق میں مصروف ہیں کہ ملازمتوں سے لوگوں کہ اس بڑی تعداد میں استعفوں کی وجہ کیا ہے۔ کیا لوگ اس بات سے ناراض ہیں کہ وہ کئی سالوں سے ایک ہی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں؟

شاید، کیونکہ اسکولوں کے بند ہوجانے سے والدین پرعائد خاندانی و معاشی دباؤ ، کاروبار میں نقصان، آبادی کو مختلف مقامات اور صنعتوں میں تبدیل کرنا اور اس کے ساتھ وائرس کے خوف نے بھی یقینی طور پر گریٹ ریزیگنیشن میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ریموٹ ورکنگ یا گھر سے کام کرنے کے تجربے نے بھی سے بیشتر افراد کو اپنی اپنی زندگیوں اور دنیا کو دیکھنے کے انداز کو تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

اس بات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ذاتی اور اجتماعی تجربات کس طرح ہمارے معاشی انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

امریکا بیورو برائے شماریات کے مطابق اپریل سن دو ہزار اکیس میں چار ملین افراد نے ملازمتوں کا خیرباد کہا جبکہ مئی میں ایسے افراد کی تعداد تین اعشاریہ نو رہی۔

جہاں تک وبائی امراض کے اثرات کا تعلق ہے ، ایک جرمن محقق نے پیش گوئی کی ہے کہ ورک فرام ہوم ، ریموٹ تعلیم اور دیگر معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کے اثرات کورونا وائرس کےخاتمے کے بہت بعد بھی ہمارے زندگی کے انتخابات پر اثر انداز ہوتے رہیں گے اور ہم میں سے بیشتر افراد نئی اور بہتر زندگی کی کھوج میں نوکریاں تبدیل کرتے رہیں گے۔

نوکریوں سے استعفے اور نفسیاتی دباو

میری راے میں نفسیاتی دباؤ گریٹ ریزیگنیشن کی سب سے بڑی اوراہم  وجہ ہے۔ دفتروں کا ماحول اور مینیجرز کا دباؤ میں آکر اپنے ملازمین کے ساتھ بری طرح پیش آنا، ساتھ ہی جاب ڈسکریپشن کا تصور ختم ہوجانا، کام کا دباؤ اور یہ اس پر جب کہ تنخواہوں میں اضافہ بھی نہ کیا جائے، لوگوں کے نوکریوں سے استعفی کی اہم وجوہات ہیں۔

بہت سے دفتروں میں ورک فرام ہوم کے دوران پرانے ملازمین پر نہ صرف کام کا دباؤ دیکھا گیا بلکہ ساتھ ہی ٹیکنالوجی کو سیکھنا اور اس کا صحیح استعمال کرنے کا دباؤ بھی دیکھنے میں آیا۔ بہت سے پرانے ملازمین نے اس لیے بھی استعفی دیے کہ وہ اس ماحول میں کام نہیں کرسکتے تھے۔

امریکی حکام کے مطابق عالمی وبا کے بعد امریکا میں نوکریوں سے استعفے دینے میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مردوں نے ستمبر سن دو ہزار اکیس کے دوران 194000 نوکریاں حاصل کیں تو دوسری طرف 300,000 خواتین نے نوکریوں سے استعفے دیے۔

 یہی رجحان مشرقی ممالک میں بھی دیکھا گیا۔ میری رائے میں اگر خواتین کو ملازمت میں وہ تمام سہولیات دی جائیں جو ترقی یافتہ معاشروں میں دی جاتی ہیں، جیسے کہ پیڈ چھٹیاں، بونسز، ڈے کیئر سینٹرز وغیرہ، تو خواتین کے استعفوں کی تعداد کم ہوسکتی ہے۔

بھارت ميں سیکس ورکرز قرضوں تلے دب گئے