1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

کورونا وائرس: برطانیہ نے نئی آکسفورڈ ویکسین کی منظوری دے دی

30 دسمبر 2020

برطانوی ریگولیٹری حکام نے کورونا وائرس کے خلاف آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکیسن کی منظوری دے دی ہے۔ برطانیہ نے مشہور ملکی کمپنی آسٹرا زینیکا کو اس ویکیسن کی ایک سو ملین خوراکیں فراہم کرنے کا آرڈر بھی دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3nNT9
Grossbritannien Oxford | Coronavirus | Impfstoff
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Cairns

اس ویکسین کی برطانوی ریگولیٹرز کی طرف سے منظوری کا مطلب یہ ہے کہ یہ مریضوں کے لیے محفوظ بھی ہے اور کورونا وائرس کے خلاف مؤثر بھی۔ اس ویکسین کی ایک سو ملین خوراکوں کا مطلب یہ ہے کہ پچاس ملین افراد اس سے مستفید ہو سکیں گے۔

وزیر اعظم بورس جانسن نے اسے ایک 'زبردست خبر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ 'برطانوی سائنس کی فتح‘ ہے۔ برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک کا ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اب ''ویکسینیشن کے عمل کو تیز تر بنایا جا سکے گا۔‘‘ ان کا برطانوی ٹیلی وژن سکائی نیوز سے گفتگو کے دوران کہنا تھا، ''یہ ویکسین زندگی معمول پر لانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ اب ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ بہار کا موسم ہم باہر گزار سکیں گے۔‘‘

یہ ویکیسن کتنی مؤثر ہے؟

برطانوی ریگولیٹری ادارے کی جانب سے اس ویکیسن کی توثیق آکسفورڈ کی ٹیم اور آسٹرا زینیکا دونوں کے لیے ہی خوش آئند ہے۔ ان دونوں پر الزام تھا کہ انہوں نے فائنل اسٹیج نتائج کے بارے میں شفافیت کو برقرار نہیں رکھا تھا۔ ان ٹرائلز کے ٹھوس نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اس ویکیسن کی مجموعی افادیت 70.4 فیصد تھی۔ ٹرائلز کے دوران جن مریضوں کو اس ویکیسن کی دو دو خوراکیں فراہم کی گئی تھیں، ان میں سے باسٹھ فیصد کو فائدہ ہوا تھا لیکن ایک چھوٹے گروپ کو اس ویکیسن کی نصف خوراک دی گئی تھی اور ان مریضوں پر اس کا اثر نوے فیصد تھا۔

یہ بائیو این ٹیک فائزر کی ویکسین سے کتنی مختلف ہے؟

برطانیہ نے رواں ماہ کے اوائل میں بائیو این ٹیک فائزر کی ویکیسن کی منظوری بھی دے دی تھی اور یہ ویکسین جرمن سائنسدانوں کی تیار کردہ ہے۔ آکسفورڈ آسٹرا زینیکا نے ٹیسٹوں کا آغاز سن دو ہزار بیس کے شروع میں کیا تھا لیکن ابتدائی کلینیکل ٹیسٹوں کا آغاز اپریل میں ہوا تھا۔ اندازوں کے مطابق برطانوی طبی حکام اسی ویکیسن کو بڑی تعداد میں استعمال کریں گے کیوں کہ یہ جرمن سائنسدانوں کی تیار کردہ ویکیسن سے سستی ہے اور اسے آسانی سے تیار کیا جا سکتا ہے۔

جرمنی میں تیار کردہ ویکیسن کو منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں رکھنا لازمی ہوتا ہے جبکہ آکسفورڈ ویکیسن کو ایک عام ریفریجریٹر میں بھی رکھا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ویکسین کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی آسان ہو گی۔

کیا یہ تبدیل شدہ کورونا وائرس کے خلاف بھی مؤثر ہو گی؟

برطانیہ اور جنوبی افریقہ خاص طور پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نئے کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کی یہ بدلی ہوئی قسم کئی دیگر ملکوں تک بھی پھیل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ متعدد ممالک نے برطانیہ کے ساتھ اپنے فضائی اور تجارتی رابطے عارضی طور پر معطل کر دیے ہیں۔

آسٹرا زینیکا اور دیگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ یہ ویکیسن بدلے ہوئے کورونا وائرس کے خلاف بھی یکساں مؤثر ثابت ہو گی۔ آسٹرا زینیکا کے چیف ایگزیکٹیو پاسکل سوریوٹ کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہمیں یقین ہے کہ یہ ویکیسن کورونا وائرس کی تمام اقسام کے خلاف مؤثر ثابت ہو گی۔‘‘ دوسری جانب یورپی ریگولیٹرز اور یورپین میڈیسن اتھارٹی (ای ایم اے) نے کہا ہے کہ آکسفورڈ ویکیسن کی فی الحال یورپ کے لیے منظوری نہیں دی جا سکتی اور ایسا کوئی بھی فیصلہ فروری سے پہلے نہیں ہو سکتا۔

یورپین میڈیسن اتھارٹی کے مطابق اس ویکیسن کی یورپ کے لیے منظوری کے حوالے سے ابھی تک اس ادارے کو کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ اس مقصد کے لیے آسٹرا زینیکا کو پہلے کوالٹی ڈیٹا فراہم کرنا ہو گا۔ ایک بیان کے مطابق، ''ہم صرف ایک پریس ریلیز کی بنیاد پر اس ویکیسن کے یورپ میں استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘

یورپی یونین نے آسٹرا زینیکا کو تقریباﹰ چار سو ملین خوراکیں فراہم کرنے کا آرڈر دے رکھا ہے لیکن ای ایم اے کے مطابق یہ ویکسین منگوانے سے پہلے یورپین میڈیسن اتھارٹی کے اجازت نامے کی بھی ضرورت ہو گی۔

کورونا وائرس کی نئی قسم کے علاج کے لیے ویکسین

ا ا / م م (روئٹرز، ڈی پی اے)