1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوئی راز فاش کرنے کے دعوے دار، تو کوئی فتویٰ لگانے میں مصروف

6 ستمبر 2021

ہرگزرے دن کبھی خواتین تو کبھی بچوں سے زیادتی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی حادثہ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پورے زور و شور سے ایسے ہر سانحے پر رپورٹنگ، تجزیے اور تبصرے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3zyPo
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

ہرگزرے دن کبھی خواتین تو کبھی بچوں سے زیادتی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی حادثہ یا سانحہ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔  مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پورے زور و شور سے  ایسے ہر سانحے پر رپورٹنگ، تجزیے اور تبصرے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔  حادثے کی نوعیت اور شدت پر منحصر ہے کہ یہ سلسلہ چند دنوں پر محیط ہوگا یا چند گھنٹوں پر۔  ساتھ ہی ہمارے معاشرے کا ہر ایک شخص ان حادثات کے بارے میں اظہار خیال اور اس پر تبصرہ کرنے کو اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ مخالف سوچ رکھنے والے لوگوں کا سوشل میڈیا پر آپس میں جنگ و جدل کا سماں بھی نظر آتا ہے۔

سماجی رابطے کی کسی بھی ویب سائٹ کا استعمال کرنے کی کوشش کریں تو ہر پوسٹ اور ہر چینل پر صرف یہی خبر سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہوتی ہے۔ ہر شخص ایسے کسی حادثے کے حوالے سے مختلف کہانیاں اور تحقیقات اتنے یقین سے پوسٹ کر رہا ہوتا ہے کہ جیسے یہ ان کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہو۔ اتنی تحقیقات ابھی تک پولیس نے نہیں کی ہوتیں، جتنا ہمارے عوام اس کام میں مہارت دکھاتے ہیں۔ یوٹیوب پر بے شمار ویڈیوز کا ٹائٹل یہی ہوتا ہے کہ اس حادثے کے حوالے سے ہم بہت بڑا راز فاش کرنے جا رہے ہیں۔ اتنے اعتماد سے جھوٹی تحقیقات پیش کی جاتی ہیں کہ ہماری سادہ لوح عوام اس کو من و عن تسلیم کر لیتی ہے۔

چاہے موٹروے والا حادثہ ہو یا نور مقدم کا کیس، عوام کی تحقیقات پر مبنی ہزاروں ویڈیوز اور تحریریں پڑھنے کو مل جائیں گی۔ کوئی راز فاش کرنے کا دعوی کر رہا ہے تو کوئی فتویٰ لگانے میں مصروف ہے۔ کسی کو حادثے کا شکار ہونے والے کے لائف اسٹائل پر اعتراض ہے تو کسی کو اس کے لباس پر۔ کوئی مغرب سے تقابلی جائزہ کرکے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ہمارے یہاں تو ایسے جرائم کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ یعنی صحیح غلط کا فیصلہ تعداد کے کم یا زیادہ ہونے پر منحصر ہے؟

تاریخ نویسی پر ڈاکٹر مبارک کا بلاگ پڑھیے

اس سارے شور شرابے میں یہ بات کہیں دب کر رہ جاتی ہے کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، ریاستی اداروں سے قانون سازی کا مطالبہ کیا جائے۔ اتنی زیادہ تیزی سے ایک ہی نوعیت کی خبروں میں اضافہ اس بات کا متقاضی ہے کہ بنیادی مسئلے کو اجاگر کیا جائے۔ مسلسل ایسی خبروں کے آنے سے معاشرے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں اگر جنسی زیادتی کے کیس بڑھنا شروع ہوگئے ہیں تو اس حوالے سے بنیادی مسئلے کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ ایسے جرم کا مرتکب شخص بے حس اور متشدد ہوتا ہے اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی اور تشدد کے رجحان میں اضافے کی بنیادی وجہ ماہرین یوں بیان کرتے ہیں کہ 'کسی بھی معاشرے میں بےحسی اور تشدد اس وقت جنم لیتا ہے جب اس معاشرے میں انصاف کا حصول نا ممکن ہو جائے‘۔

ہمارے ہاں جب کسی ریپ کی خبر آتی ہے، کسی کو ہراساں کیا جاتا ہے یا پھر کوئی ذہنی اور جسمانی تشدد کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے تو بڑے افسروں کے ساتھ وزیر اور مشیر بھی جاگ جاتے ہیں۔ چھوٹے افسروں کو معطل کیا جاتا ہے، مجرموں کو پکڑنے اور عبرتناک سزا دلوانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ہم ہمیشہ کسی بھی سانحے یا حادثے پر چار دن ماتم کرتے ہیں۔ ٹاک شوز میں شور مچایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر آپس میں الجھنے کی مشق کرتے ہیں۔ اور پھر کسی نئے موضوع کو تلاش کر کے پرانے کو بھول جاتے ہیں لیکن اس واقعے سے سبق لینے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو یہ جاننا ہو کہ کسی بھی معاشرے میں بنیادی مسائل کیا ہیں تو آپ اس معاشرے میں رونما ہونے والے جرائم کی نوعیت کا جائزہ لیجئے۔ ہمارے معاشرے میں بھی جرائم کی نوعیت بدلنے کی بنیادی وجہ ہمارے رویے ہیں۔

ہمارے لیے یہ بات اہم کیوں ہے کہ مینار پاکستان والے واقعہ میں لڑکی سچی تھی یا جھوٹی تھی۔ موٹروے والے حادثے میں خاتون نے رات کو سفر کیوں کیا؟ نور مقدم نے دینی تعلیمات کے مطابق زندگی کیوں بسر نہ کی؟ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ آخر اس شخص سے ملتی کیوں تھی؟ ایک منٹ کے لیے اپنے آپ سے یہ سوال کیجیے کہ نور مقدم کا جرم زیادہ بڑا تھا یا اس ملزم کا؟ اتنا غیر انسانی سلوک اتنا متشدد رویہ ایک انسان کے اندر کہاں سے آیا؟ معاشرہ چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم ، لوگوں کو کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ کسی بھی انسان کو کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلنا شروع کر دیں۔

رشتوں اور تعلق پر طاہرہ سید کا بلاگ

 ہمیں یہ حق کس نے دیا کہ ہم کسی بھی حادثے کے بعد اپنی ذاتی تحقیقات کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کر دیں۔ اس کام میں تمام عوام مل کر اپنا اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر شخص سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر تین سے چار پوسٹ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ہمارا یہ رویہ معاشرے کو کس طرح کے نقصانات سے دوچار کر رہا ہے۔ ہم اپنے خیال میں اپنا فرض نبھا رہے ہوتے ہیں، لیکن دراصل ہم اس بگاڑ کو معاشرے میں سرایت کرنے کے عمل میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن پھر ایسے خوفناک جرائم اکثریت کی نظر میں معمول کا عمل بن کر اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔ ایک ہی بات کی تکرار اور اسی حوالے سے بار بار کچھ سننا یا کچھ کہنا اس کی ہولناکی کو کم کر دیتا ہے۔ پھر انسانی ذہن اس کو ایک معمول کا عمل سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔

یہی طریقہ ہماری اشتہاری کمپنیاں اور سیاستدان بھی اختیار کرتے ہیں۔ ایک ہی بات کو مسلسل دہراتے رہنے سے اور ایک ہی پیغام کو بار بار نشر کرنے سے وہ ہماری عادت بن جاتا ہے۔ ہم اسے نوٹ کرنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اور خبر کی تعریف یہی ہے کہ جس واقعے میں کوئی نئی بات ہو تو خبر بنتی ہے۔ روز روز ایک جیسے واقعات روزانہ کا معمول کہلانے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اب آئے دن ٹریفک حادثات میں لوگوں کی جان جانے میں کوئی نئی بات نہیں رہی۔ نہ تحقیقاتی کمیٹی بنتی ہے نہ کوئی احتجاج ہوتا ہے اور نہ کوئی تفتیش کی جاتی ہے۔

 توہم پرستی کیا ہے؟ طاہرہ سید کا بلاگ پڑھیے

اب تو نیورو سائنس دانوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ الفاظ کے پیچھے چھپے مطالب دراصل انسانی اعمال اور نفیسات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے کئی مطالعے کیے جا چکے ہیں، جن کے نتائج بتاتے ہیں کہ  الفاظ کی تاثیر ہمارے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ الفاظ ہمارے دماغ میں موجود مختلف سرکٹس کو متحرک کرتے ہیں۔ اچھے رویے اچھی نصیحتیں اور مثبت مواد نظروں سے گزرتا رہے تو رویے تبدیل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی طرف سے ان واقعات کی ترویج و اشاعت میں حصہ ڈالتا رہے گا اور ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہے گا تو پھر ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمارے دماغ کے مثبت سرکٹ بھی متحرک ہو پائیں گے۔

ہم میں سے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا ہوگا۔ ایسے حادثات اور سانحات کی تحقیقات ریاستی اداروں اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ ہم ان اداروں سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ تو کر سکتے ہیں۔ قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن پیش آنے والے حادثے کو بار بار دہرا کر وکیل یا جج بننے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ اس سے نقصان کسی اور کا نہیں ہمارے پورے معاشرے کا ہے۔ ایسے حادثات پر غیر سنجیدہ انداز میں مسلسل بات کرکے ہم اس کی ہولناکی کو کم کر رہے ہوتے ہیں۔ کہیں وہ وقت نہ آجائے کہ یہ واقعات روزانہ کا معمول بن کر خبر ہی نہ رہیں۔