کوئٹہ میں ایرانی اسکولوں کی بندش، مقامی بچوں کا مستقبل کیا؟
16 جون 2021
رواں ہفتے بارہ جون کو ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعلیم کے حکام نے ایک کارروائی کے دوران ہزارہ ٹاؤن کے علاقے کرانی روڈ اور ملحقہ علاقوں میں 6 اسکولوں کو سیل کر دیا تھا۔ حکام کے مطابق ان اسکولوں میں طلباء کو ایرانی نصاب پڑھایا جا رہا تھا۔ کوئٹہ میں قائم ایرانی قونصل خانےکے پریس سیکشن کے مطابق ایرانی اسکولوں کو پاکستانی حکام نے کسی پیشگی اطلاع کے بغیر سیل کیا ہے ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پریس سیکشن کے ایک ترجمان نے کہا ، '' کوئٹہ میں ایرانی اسکولوں کا آغاز ایک معاہدے کے تحت ہوا تھا ۔ پاکستانی متعلقہ حکام وقتاً فوقتاً ان اسکولوں کا جائزہ بھی لیتے رہے ہیں ۔ رواں سال بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے ان اسکولوں کے اساتذہ، طلباء اور مالی اخراجات کے حوالے سے تفصیلات طلب کی تھیں جو کہ بروقت فراہم کی گئیں ۔‘‘
ایرانی قونصل خانے کے پریس سیکشن کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام سے اسکولوں کی بندش کے حوالے سے رابطہ کیا گیا ہے اور غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
کارروائی کے دوران ایرانی اسکولوں سے 'قابل اعتراض‘ ایرانی لٹریچر کی برآمدگی کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے ۔ حکام کہتے ہیں کہ ایرانی مالی اعانت والے اسکولوں کا حکومتی تعلیمی ادارے سے کوئی الحاق نہیں تھا۔
’یکساں نصاب ایک سہانا خواب اور انتخابی نعرے کے سوا کچھ نہیں‘
ایرانی سرپرستی میں چلنے والے ان اسکولوں میں اسّی سے زائد اساتذہ فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔ ایسے ہی ایک اسکول کے استاد جو ہزارہ ٹاؤن میں مقیم ہیں نے ڈوئچےویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ۔
نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیل کیے گیے ان ایرانی اسکولوں کے انتظامی معاملات کو کوئٹہ میں قائم ایرانی قونصل خانے سے براہ راست کنٹرول کیا جاتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، ''ہزارہ ٹاؤن میں ایرانی سرپرستی میں جو اسکول چلائے جارہے تھے ان کا مکمل نصاب ایرانی تھا ۔ میں گزشتہ پانچ سالوں سے ان سیل کیے گئے اسکولوں میں سے ایک اسکول میں بطور معلم فرائض سرانجام دیتا رہا ہوں۔ ہم طلباء کو جو نصاب پڑھارہے تھے اس پر پہلے کبھی کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا تھا ۔ فارسی زبان میں درس وتدریس کو مقامی لوگ بھی پسند کرتے تھے ۔ ہزارہ ٹاؤن میں مقیم لوگوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کی مادری زبان فارسی ہے ۔ ایرانی اسکولوں میں انٹرمیڈیٹ کے بعد اکثر طلباء اعلیٰ تعلیم کے لیے کابل اور ایران بھی جایا کرتے تھے۔ ‘‘
ایرانی اسکول کے استاد کے بقول ایرانی اسکولوں کا معیار تعلیم والدین کے لیے کبھی قابل اعتراض نہیں رہا ہے تاہم ان اسکولوں کی بندش سے زیرتعلیم بچوں کا مستقل خطرے میں پڑ گیا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ، '' ان اسکولوں کے انتظامی معاملات سے اساتذہ کو ہمیشہ دور رکھا جاتا رہا ہے ۔ یہاں تعلیمی نصاب میں جو کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ان میں بانی انقلاب ایران آیت اللہ روح اللہ خمینی اور موجودہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی تعلیمات بھی شامل تھیں ۔‘‘
یکساں نصاب: کیا سیاست دانوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے بچے بھی ایک ہی نصاب پڑھیں گے؟
کوئٹہ میں تعینات محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر محمد جاوید کہتے ہیں کہ ایرانی اسکول پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی میں رجسٹرڈ نہیں تھے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، '' دیکھیں یہ اسکول 1991ء میں صوبائی محکمہ تعلیم اور انتظامیہ کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت کے تحت قائم کیے گئے تھےتاہم اس مفاہمت کی بعد میں اسکولوں کی انتظامیہ نے کوئی تجدید نہیں کرائی۔ اس وقت متعلقہ حکام اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں اور مزید کارروائی تحیققاتی رپورٹ کی روشنی میں عمل میں لائی جائے گی ۔ ‘‘
محمد جاوید کا کہنا تھا کہ جن ایرانی تعلیمی اداروں کو سیل کیا گیا ہے ان کی انتظامیہ نے باضابطہ طور پر حکومت سے رابطہ کیا ہے تاہم اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ تمام پہلوؤں کے جائزے کے بعد ہی کیا جائے گا ۔
انہوں نے مزید کہا، ''دیکھیں ان اسکولوں کی بندش کے دوران کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے ۔ قومی تعلیمی نصاب پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایرانی اسکولوں میں جو نصاب پڑھایا جا رہا تھا اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ ان تعلیمی اداروں کے مستقبل کے بارے میں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘‘
سیل کیے گئے ایرانی اسکولوں میں پڑھانے والے اکثر اساتذہ مقامی شہری بتائے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان اسکولوں کے بعض اساتذہ نے تنخواہیں بروقت نہ ملنے کی شکایات بھی پاکستانی وزیراعظم کے سیٹیزن پورٹل پر درج کرائی ہیں ۔
کوئٹہ کے مضافات میں اہل تشیع افراد کے مرکزی علاقے ہزارہ ٹاؤن میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہزارہ برادری کے لوگ بھی کثیر تعداد میں مقیم ہیں ۔
مدرسوں کے بجائے اسکول زیادہ انتہا پسند پیدا کر رہے ہیں
ہزارہ ٹاؤن میں مقیم پچاس سالہ جواد علی ہزارہ کے دو بچے بھی کرانی روڈ پر واقع ایک ایرانی اسکول میں زیر تعلیم ہیں ۔ جواد علی کے بقول اسکول کی بندش سے ان کے بچے معیاری تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، '' یہاں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کے داخلے کے لیے ب فارم اور والدین کے قومی شناختی کارڈ کی تفصیلات مانگی جاتی ہیں ۔ شہریت کی دستاویزات نہ ہونے کے باعث ہمارے بچے ان تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھ سکتے ۔ ایرانی اسکول ہمارے بچوں کےمستقبل کا واحد سہارہ ہیں ۔‘‘
جواد علی کاکہنا تھا کہ ایرانی اسکولوں میں بچوں سے صرف داخلے کی فیس وصول کی جاتی ہے اور بعد میں مکمل تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔
سعودی عرب: انتہاپسند نظریات کے خاتمے کے لیے نصابی تبدیلیاں
ہزارہ قبیلے کے سرکردہ رہنما، لیاقت علی ہزارہ کہتے ہیں کہ ایرانی اسکولوں کے حوالے سے حکومتی سطح پر مجرمانہ غفلت سامنے ائی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' دیکھیں میرے خیال میں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ حکومت تمام تردعووں کے باوجود تعلیمی نظام پراس قدر غفلت کامظاہرہ کر رہی ہے ۔ ایرانی اسکول اگر غیرقانونی طور یہاں سرعام چلائےجا رہے تھے تو متعلقہ حکام نے پہلے کیوں کوئی کارروائی نہیں کی ؟ میرے خیال میں یہاں صرف ایران نہیں باقی ممالک کے نصاب بھی بچوں کو مختلف اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں ان کے خلاف بھی بلاتفریق کارروائی ہونی چاہئے۔‘‘
کیا یہ بچوں کو اسکولوں میں جہاد سکھانے کا وقت ہے؟
لیاقت ہزارہ کا کہنا تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کے نصاب کا تفصیلی جائزہ وقت کی اولین ضرورت ہے ۔ حکومت بہتر تعلیمی نظام کے زرئعے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرسکتی ہے ۔
واضح رہے کہ کوئٹہ کی علمدار روڈ پر قائم ایک فلاحی ادارے سے وابستہ چار افراد کو بھی کچھ عرصہ قبل ایرانی انٹیلی جنس سے تعلق اور مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا۔
مصنف : عبدالغنی کاکڑ ، کوئٹہ