1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کلائميٹ ايمرجنسی‘ کے ليے بھارتی نوجوان ميدان ميں اتر آئے

28 جون 2019

بھارت ميں شديد گرمی کی لہريں اور پانی کی قلت عام ہوتی جا رہی ہيں۔ ايسے ميں تقريباً نصف ملين افراد نے ايسی دو مختلف پٹيشنز کی حمايت کی ہے، جن ميں حکومت سے ’کلائميٹ ايمرجنسی‘ نافذ کرنے کا مطالبہ کيا گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/3LIgp
Indien Wetter Wärmewelle
تصویر: Getty Images/AFP/A. Sankar

سويڈن سے تعلق رکھنے والی گريٹا تھونبرگ سے متاثر ہونے والے سولہ سالہ بھارتی طالب علم امن شرما نے انٹرنيٹ کی ايک ويب سائٹ پر رواں سال مئی ميں ایک پٹيشن لانچ کی۔ شرما يہ محسوس کر رہے تھے کہ ہر سال گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے جبکہ خشک گرمی، آلودگی اور پانی کی قلت ميں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور کوئی اس کے ليے کچھ نہيں کر رہا۔ يہی عدم توجہ اس نوجوان کے اس عمل کا سبب بنی۔ شرما نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ميں نے يہ مہم حکومت پر دباؤ ڈالنے کے ليے شروع کی ہے کيونکہ اگر ہم اب چپ رہے، تو مستقبل ميں بات ہماری بقا پر آن پہنچے گی۔‘‘ ان کی پٹيشن پر اب تک 170,000 افراد دستخط کر چکے ہيں۔

شرما کا وزارت ماحوليات سے مطالبہ ہے کہ ملک ميں سر سبز و ہرے بھرے علاقے بڑھائے جائيں اور درجہ حرارت کو محدود رکھنے سے متعلق پيرس معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد يقينی بنايا جائے۔ فی الحال بھارتی وزارت برائے ماحول، جنگلات اور موسمياتی تبديليوں نے ان کے اس عمل پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا ہے۔

ممبئی شہر سے تعلق رکھنے والے انسٹاگرامر جتيندرا شرما نے بھی اسی طرز کی ايک پٹيشن اسی ہفتے لانچ کی اور اب تک تين لاکھ افراد اس کی حمايت بھی کر چکے ہيں۔ ان کے بقول ان کی کوشش ہے کہ نئی دہلی حکومت 'کلائميٹ ايمرجنسی‘ نافذ کرے۔ جتيندرا کے مطابق يہ وقت کی ضرورت ہے۔

'کلائميٹ ايمرجنسی‘ در اصل ہے کيا؟

'کلائميٹ ايمرجنسی‘ در حقيقت ايک اصطلاح ہے، جو اس ضمن ميں ہنگامی اقدامات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ماحول دوست کارکن چندرا بھوشن کے مطابق يہ ايسی صورتحال کو کہا جا سکتا ہے، جس ميں موسمياتی تبديليوں سے نمٹنے کو پاليسی و منصوبہ سازی ميں مرکزی اہميت حاصل ہو۔ رواں سال مئی ميں برطانوی وزير اعظم ٹريزا مے نے علامتی طور پر 'کلائميٹ ايمرجنسی‘ نافذ کرنے کا اعلان کر ديا تھا۔ اس وقت يورپ ميں کئی نوجوان اس ضمن ميں سرگرم ہيں اور عوامی سطح پر مظاہرے بڑھتے جا رہے ہيں۔

 ماحول دوست کارکن چندرا بھوشن کا کہنا ہے کہ ان پٹيشنز کا مطلب ہے کہ نئی دہلی حکومت کو يہ تسليم کرنا ہو گا کہ ہم بحرانی صورتحال سے دوچار ہيں۔ دہلی کے سينٹر فار سائنس اينڈ انوائرنمنٹ سے وابستہ بھوشن نے مزيد کہا، ''ہم مصيبت ميں ہيں۔ اگر بھارتی حکومت اب يہ بات تسليم نہيں کرتی، تو کچھ وقت لگے گا ليکن يہ انہيں سمجھ آ جائے گا۔‘‘

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید