1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: پائیدار امن کی تلاش

شیراز راج برسلز
7 نومبر 2018

یورپی پارلیمان میں جاری اعلٰی سطحی کانفرنس کے شرکاء نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا بھر پور خیر مقدم کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/37nPR
Kashmir Conference in Brussels
تصویر: DW/S. Raj

کشمیر کونسل - ای یو کی جانب سے منعقدہ گیارہویں سالانہ کشمیر - ای یو ویک کے افتتاحی اجلاس میں سیشن کے صدر، سجاد حیدر کریم نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جدوجہد آزادی کی ایک بڑی کامیابی ہے اور عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے درکار سیاسی ارادہ پختہ کرتے ہوئے ’تجارتی تعلقات میں انسانی حقوق کو شرط بنانا چاہیے‘۔

کشمیر گلوبل کونسل کے سربراہ، فاروق صدیقی کا بھارتی زیر انتظام کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے کہنا تھا، ’’ایسا کوئی انسانی حق یا آزادی نہیں جس کی کشمیر میں پامالی نہیں کی جا رہی۔۔۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جاری ظلم و ستم کے مقابلے میں یہ عشر عشیر بھی نہیں۔‘‘

’گواہی‘:بھارت کے ریاستی تشدد کے اثرات کی عکس بندی

کشمیر کونسل - ای یو کی جانب سے منعقدہ گیارہویں سالانہ کشمیر - ای یو ویک کے افتتاحی اجلاس میں بیلجیم کے معروف فوٹوگرافر، سیڈرک گربیہائے کی تصاویر دکھائی گئیں، جنہیں ’گواہی‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ ان تصاویر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک اور ریاستی تشدد کے سماجی، سیاسی، ثقافتی اور معاشی اثرات کی عکس بندی کی گئی تھی۔ ان تصاویر کو انتہائی پر اثر اور امن کی جدوجہد کا ورثہ قرار دیا گیا۔

سات دہائیوں میں 70 ہزار کشمیری ہلاک

انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ کارکن، جموں و کشمیر سول سوسائٹی اتحاد کے سربراہ، خرم پرویز کا کہنا تھا کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوئی ہے: ’’گزشتہ سات دہائیوں میں ستر ہزار کشمیری شہید ہوئے ہیں، آٹھ ہزار لاپتہ ہیں اور ہزاروں پر جنسی تشدد کیا گیا ہے۔ تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور کالے قوانین رائج ہیں۔‘‘ خرم پرویز  نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی سفارشات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

یورپی پارلیمان کے رُکن واجد خان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر جنوبی ایشیا کی تعمیر و ترقی کے لیے درکار پائیدار امن ممکن نہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جنوری 2019 میں یورپی یونین کی انسانی حقوق کمیٹی میں کشمیر کے حوالے سے خصوصی سماعت کی جائے گی۔

 

اقوام متحدہ کی رپورٹ: مندر جات و سفارشات

اقوام متحدہ کی جانب سے 14 جون 2018 کو جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر میں جون 2016 سے اپریل 2018 کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال اور پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا محاکمہ کیا گیا ہے اور سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے آغاز میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے مشن برائے انسانی حقوق کو آز ادانہ تحقیق و تفتیش کی اجازت نہ دی گئی لہٰذا انہیں ضمنی(مگر معتبر اور ناقابل تردید) ذرائع یعنی شہادتوں، تجزیوں اور رپورٹوں پر انحصار کرنا پڑا۔

رپورٹ کا آغاز آٹھ نومبر  2016 کو حزب مجاہدین کے بائیس سالہ نوجوان کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت سے ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’کشمیر میں احتجاج کی لہریں 1980 کے اواخر اور 1990 کے آغاز میں بھی اٹھیں، 2008  میں بھی اور 2010 میں بھی لیکن برہان وانی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں نہ صرف لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی بلکہ اس کی قیادت، نوجوانوں اور نچلے اور درمیانے طبقے کے کشمیریوں کے ہاتھ میں  تھی جن میں ایک بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل تھیں۔ سول سوسائٹی کے اندازوں کے مطابق جولائی 2016 سے مارچ 2018 کے دوران 145 کشمیریوں کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں افراد زخمی اور بینائی سے محروم ہوئے۔ بھارتی افواج کی جانب سے استعمال ہونے والا خطرناک ترین ہتھیار پیلٹ گن تھا۔ کشمیر کی چیف منسٹر محبوبہ مفتی کے مطابق جولائی 2016  سے فروری 2017 کے دوران 6221 افراد پیلٹ گن سے زخمی ہوئے۔‘‘

 Kashmir Conference in Brussels
گیارہویں سالانہ کشمیر - ای یو ویک کے افتتاحی اجلاس میں سیشن کے صدر، سجاد حیدر کریم نے کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جدوجہد آزادی کی ایک بڑی کامیابی ہے۔تصویر: DW/S. Raj

رپورٹ میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لاقانونیت، ریاستی تشدد، انسانی حقوق کی پامالیوں، نظام انصاف کے مفلوج ہونے اور مسلح افواج کو لامحدود اختیارات دینے والے قوانین (آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ – 1990) اور پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2016-17 کے دوران ایک ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن میں بچے بھی شامل تھے۔ اس احتجاجی لہر کے دوران طویل کرفیو، نظام نقل و حمل کی معطلی، طبی سہولیات سے محرومی، موبائل فون، اخبارات، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی بندش کے سبب نظام زندگی مکمل طور پر معطل ہو گیا۔ اس رپورٹ میں ہزاروں لاپتہ افراد، پونچھ اور راجوڑی سیکٹر میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں (2012 ) اور کونن پوشپورہ (1991) کے اجتماعی زنا بالجبر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین اور حرکت المجاہدین جیسی متعدد جہادی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں جو اغواء، قتل اور جنسی جرائم میں ملوث ہیں۔ ان تنظیموں نے نہتے شہریوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی راہ نماؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ 1989 سے اب تک 650 کشمیری پنڈت قتل کیے جا چکے ہیں اور 62,000 کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق، ’’ماہرین کے خیال میں پاکستان ابھی تک بھارتی کشمیر کے مسلح گروہوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔‘‘

رپورٹ میں پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور بلتستاں کی ’’نام نہاد خود مختاری‘ اور در حقیقت پاکستانی ریاست کے غلبے، کشمیر اسمبلی میں الحاق پاکستان سے وفاداری کو ’لازم‘ قرار دینے کے قانون، ذرائع ابلاغ پر الحاق پاکستان کے منافی مواد شائع نہ کرنے کی پابندی، انسانی حقوق کے سینکڑوں کارکنوں کی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت گرفتاری،  گلگت بلتستان میں سی پیک معاہدہ کے تحت ہزاروں افراد کی بے دخلی اور اقلیتوں خصوصاﹰ احمدیوں کے ساتھ آئینی طور پر روا امتیازی سلوک کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق متعدد سفارشات کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت دونوں سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، شیریں مزاری کی تجاویز

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آز ادانہ تحقیق کی اجازت نہ دینا سنگین غلطی تھی لیکن پاکستان کو ابھی بھی یہ اجازت دے کر اقوام متحدہ کی اس انتہائی معتبر رپورٹ کی بنیاد پر دنیا بھر میں رابطہ کاری کرنی چاہیے۔

شیریں مزاری نے امن تجاویز کا خاکہ پیش کرتے ہوئے پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان بیک وقت سہ طرفی اور سہ سطحی مذاکرات، دونوں جانب کے کشمیر سے فوجیں واپس بلانے اور ریفرنڈم کمیشن کے قیام کی تجاویز دیں۔ شیریں مزاری کے مطابق، ’’پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات مسئلہ کشمیر کا حل نہیں، صرف منیجمنٹ چاہتے ہیں جو، ’تنگ نظری پر مبنی ایک سرنگ بند سوچ‘ ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کشمیر کونسل کے سربراہ، علی رضا سید کا کہنا تھا، ’’ہم اقوام متحدہ کی رپورٹ کا خیر مقدم  کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان اور بھارت کی ریاستیں دو طرفہ طور پر مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام رہی ہیں لہٰذا عالمی برادری کو عملی کردار ادا کرنا ہو گا اور یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی 1948 کی قرادادوں کے بعد دوسرا بڑا سنگ میل ہے۔‘‘

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ دو کروڑ کشمیری ایک ارب سے زائد لوگوں کے مستقبل کو یرغمال بنا لیں لیکن کشمیریوں کے حقوق کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اس سمت میں پیش رفت کی راہ تلاش کریں۔ ہم کشمیری جنوبی ایشیا میں امن کے سہولت کار بن سکتے ہیں۔‘‘