1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر، قانون کی کتابوں میں درج انسانی حقوق کی اصلیت

9 جون 2021

کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر شفیق احمد راٹھور، جب کلاس روم میں وارد ہو کر پاٹ دار آواز میں آئین و قانون کی کتابوں میں درج فرد واحد کو دی گئی آزادی پر لیکچر دیتے تھے، تو احساس تفخر سے گویا خون میں روانی پیدا ہو جاتی تھی۔

https://p.dw.com/p/3ucvZ
 DW Urdu Bloggerin Farhana Latief
تصویر: privat

ایک قسم کا احساس کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ اس جمہوری معاشرے اور اس کو چلانے والے انسانوں کے اس قدر خیال رکھنے والے آئین و قانون کی عملداری میں جی رہے ہیں۔ کلاس روم کی بینچوں پر ہی ان قوانین کا استعمال کرتے ہوئے حکام کا احتساب کر نے اور سیکورٹی فورسز کو حقوق انسانی کا درس دینے کے خواب نظر آتے تھے۔ مگر جونہی نسیم باغ میں واقع کیمپس کے چناروں سے اٹے ہوئے خوبصورت جنگل سے باہر نکلتے تھے، یہ قانون اور آئین میں دی گئی سبھی آزادیاں و حقوق بس ایک طلسم لگتی تھیں۔ سیکورٹی فورسز کے کسی جوان کی بس ایک کرخت آواز ہی آزادی کے ان خوابوں کو چکنا چور کر دیتی تھی۔

قانون کی کتابوں اور عدالتوں کے لاتعداد فیصلوں کا حوالہ دے کر پروفیسر صاحب کہتے تھے کہ حکومتی ادارے کسی بھی شخص کو شنوائی کا حق دیے بغیر کوئی بھی کارروائی کرنے کے مجاز نہیں۔ اب لگتا ہے جموں و کشمیر کی انتظامیہ یا تو قانون سے لا علم ہے یا پروفیسر راٹھور ہمیں کسی اور ہی سیارے کے قانون اور آئین کا درس دیتے تھے۔

کشمیر کے سیاسی اور حکمرانی ڈھانچے طاقت کا اکثر اوقات بلا روک و ٹوک مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال ”ملک دشمن سرگرمیوں " کا نوٹس لینے کے نام پر چھ سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لسٹ خاصی لمبی ہے اور اگلے کئی ماہ تک مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کو آئین کی دفعہ 311(2) کے تحت اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تفتیش کے اور بس اپنی صوابدید کا استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرنے کے احکامات صادر کر سکتے ہیں۔

حیرت کا مقام ہے کہ گورنر صاحب نے اپنی صوابدید کا استعمال تو کیا، مگر پولیس کا کہنا ہے کہ ان میں کئی افراد کا اس کے پاس کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ اگرچہ آئین کی یہ شق ایمرجنسی حالات میں صدر مملکت یا ریاستی گورنر کو صوابدیدی پاور استعمال کرنے کا اختیار تو دے سکتی ہے مگر عدالتوں نے بار بار اپنے فیصلوں میں لکھا ہے کہ قدرتی انصاف کے اصولوں پر عمل کیے بغیر کسی بھی صورت میں صوابدیدی اختیارات کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم سے متاثرہ فرد کو حق شنوائی دینا لازمی ہے اور اس کے لئے ایک غیر جانبدار اتھارٹی کا قیام بھی ضروری ہے۔

جن چھ ملازمین کو بیک جنبش قلم برطرف کر کے بے روزگار کر دیا گیا ہے، ان میں سے تین کے خلاف کوئی بھی مقدمات یا پولیس ریکارڈ درج نہیں ہے۔ ان سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی گئی۔ ان کو بس اتنا بتایا گیا کہ و ہ ”ملک دشمن سرگرمیوں" میں ملوث ہیں۔ طاقت کی اس طرح کی من مانی اور اختیارات کے اس بے جا استعمال نے اصول جوابدہی پر ہی سوالات کھڑ ے کر دیے ہیں۔ آئینی جمہوریت میں عدالتیں بار بار یہ کہتی آ رہی ہیں کہ انصاف کے اصولوں میں طے شدہ طریقہ کار کو شامل کیے بغیر کوئی صوابدیدی اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جو قانون و آئین کی عملداری سے مبرا ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف مجبور کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ آخر یہ ”ملک د شمن سرگرمیاں" اور ”ریاستی سلامتی "ایسی کیا چیزیں ہیں، کہ ان کے نام پر کسی کا روزگار چھین کر اور اس کو اور اس کے خاندان کو بھوک سے ٹرپتے ہوئے چھوڑا جا سکتا ہے؟

قانون کی کتابوں میں ان سرگرمیوں کو کوئی تعریف و تشریح نہیں کی گئی ہے۔ شفافیت اور تشریح کی عدم موجودگی، حکمرانوں کو وسیع تر اختیارات تفویض کرتی ہے اور ان کو صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے پر اکساتی ہے۔ اس طرح کے اختیارات کا مقصد تو ایمرجنسی حالات جیسے وباء و جنگی حالات کے دوران فیصلہ سازی کے عمل کو تیز تر کرنا ہے، نہ کہ عوام میں خوف و ہراس پھیلانا اور لوگوں کو ان کے رزق سے محروم کرنا۔

مجھے یاد ہے ایک دہائی قبل اسی قانون کی فیکلٹی کے تحت حقوق انسانی کا شعبہ قائم کیا گیا تھا۔ نسیم باغ میں چنار کے پیڑوں کی چھاؤں میں طالب علموں کو حقوق انسانی اور ان سے متعلق ملکی و بین الاقوامی قوانین کا درس دیا جاتا تھا۔ دو سال بعد ہی اس ڈیپارٹمنٹ کو بند کر دیا گیا۔ یونیورسٹی حکام نے اس کی توضیح دی کہ چونکہ کشمیر میں حقوق انسانی کے کیرئیر میں روزگار کے بہت کم مواقع دستیاب ہیں، اسی لئے اس شعبہ کو بند کر دیا گیا ہے۔

مگر وجہ یہ تھی کہ کلاس روم میں طالب علموں کو جو کچھ پڑھایا جاتا تھا، سڑکوں، گلیوں، محلوں میں ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور سرکاری اداروں اور اہلکاروں کے ساتھ ان کے معاملات میں، جب وہ ان قوانین اور حقوق کا حوالہ دیتے تھے، تو حکومتی افراد عاجز ہوتے تھے۔ بس ان کو اس عاجزی سے بچانے کے لئے ضروری تھا کہ حقوق انسانی پڑھانا ہی بند کر دو تا کہ کسی کو اپنے حقوق اور اس کے متعلق قوانین کا ہی ادراک نہ ہو سکے۔