1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرکٹ ورلڈ کپ ميں بھارتی ٹیم کی نئی جرسی متنازعہ کيوں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
29 جون 2019

ورلڈ کپ میں اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنے کے ليے بھارتی ٹيم تيس جون کو جب انگلینڈ کے خلاف میدان میں اترے گی تو کھلاڑيوں کی جرسیوں کا رنگ مختلف ہوگا۔ لیکن اس نئے رنگ پر بھارت میں تنازعہ کيوں کھڑا ہو گیا ہے؟

https://p.dw.com/p/3LKnK
Indien Cricket-Team-Trikot Nationalmannschft
تصویر: BCCI

ميزبان انگلينڈ کی ٹيم کے خلاف اہم ميچ کے ليے بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی روایتی نیلے رنگ کی جگہ نارنگی رنگ کی جرسی میں ہوں گے۔ جو رنگ نئی جرسيوں ميں نماياں ہے اسے 'بھگوا‘ رنگ بھی کہتے ہیں۔ یوں تو اسے ہندو دھرم کا علامتی رنگ سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں یہ رنگ، شدت پسند 'ہندوتوا‘ کی علامت بن گیا ہے اور یہی تنازعے کا اصل سبب ہے۔

حالاں کہ بھارتی ٹیم کی جرسی میں نارنگی رنگ قريب دو دہائی سے شامل ہے تاہم یہ پہلا موقع ہے جب جرسی کا بیشتر حصہ روایتی نیلے رنگ کے بجائے نارنگی رنگ پر مشتمل ہوگا۔ جرسی کا پچھلا اور سائیڈ کا حصہ نارنگی رنگ کا اور سامنے کا حصہ نیلے رنگ کا ہے۔

بھارت میں اپوزیشن جماعتیں ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ہندو ثقافت کو فروغ دینے کا الزام لگا رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما اور مہاراشٹر اسمبلی کے رکن عارف نسیم خان نے ”بھگوا‘ رنگ کے استعمال پر اعتراض کرتے ہوئے کہا، ”کھيل ہوں یا ثقافت یا کوئی اور ميدان، يہ افسوس کی بات ہے کہ ہر چیز کو بھگوا رنگ دیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت ملک کو شدت پسند ہندوتوا کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ ملک کے اتحاد کو تباہ کر دے گا۔"

اپوزیشن سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی نے بھی ملکی کرکٹ ٹیم کی نئی جرسی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے مودی حکومت پر ہر چیز کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کا الزام لگایا۔ اعظمی کا کہنا تھا، ”نریندر مودی پورے ملک کو بھگوا رنگ میں رنگ دینا چاہتے ہیں۔ اب جرسی کا رنگ بھگوا کر دیا گیا ہے۔ اگر مودی جی کو جرسی کا رنگ تبدیل کرنا ہی تھا، تو قومی پرچم کے تین رنگوں والا بناتے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ لیکن ہر چیز کو بھگوا رنگ میں رنگ دینا غلط ہے۔"

حکمران بی جے پی نے ان اعتراضات کو بچکانہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی رام کدم کا کہنا تھا، ”دراصل اپوزیشن جماعتوں کے پاس کوئی موضوع نہیں ہے، اس ليے اس طرح کے چھوٹے چھوٹے موضوعات اٹھاتی رہتی ہیں۔ کھلاڑیوں کو اپنی جرسی کے رنگ کا فیصلہ خود کرنے دیجيے، کیا يہ فیصلہ بھی اپوزیشن کرے گی۔"

رواں ورلڈ کپ میں اس وقت بھی ايک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا جب وکٹ کیپر اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے خنجر کے نشان والے دستانے پہنے تھے۔ یہ علامتی نشان، بھارتی فوج کے ایک یونٹ کے زير استعمال ہے۔ آئی سی سی نے اس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے دھونی کو اس طرح کے دستانے پہننے سے منع کر دیا تھا۔

بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (BCCI) نے اپنے آفیشیل ٹوئٹر اکاونٹ پر نئی جرسی اور اس جرسی میں ملبوس ٹیم کے کئی کھلاڑیوں کی تصویریں جاری کی ہیں۔ دراصل انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (ICC) کے ضوابط کے مطابق ایک میچ میں دونوں ٹیمیں لگ بھگ ایک ہی طرح کی جرسی پہن کر میدان میں نہیں اتر سکتيں۔ اور چونکہ میزبان ٹیم کو یہ رعایت حاصل ہے کہ وہ اپنی جرسی کو برقرار رکھے، اس ليے بھارتی ٹیم کو اپنی جرسی تبدیل کرنی پڑی۔ آئی سی سی نے بی سی سی آئی کو اپنی پسند کا کوئی بھی رنگ منتخب کرنے کی اجازت دی تھی۔

اسپورٹس صحافی بینو جون کا اس تنازعے پر کہنا ہے، ”اسپورٹس اب محض ٹرافی اور میڈل جیتنے تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ اب یہ قوم پرستی کے اظہار کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ چونکہ اس وقت بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کسی سربراہ کے بغیر چل رہا ہے، لہذا جب جرسی کے رنگ کی تبدیلی کی بات آئی، تو بورڈ کو چلانے والی دو رکنی کمیٹی نے بھگوا رنگ والے ڈیزائن کو فوراً منظور کر ديا۔ اگر بھارتی ٹیم کی جرسی سے جارح ہندو قوم پرستی کی علامت کا اظہار ہوتا ہے، تو اسے بھلا کون روک سکتا تھا۔"

بینو جون کا مزید کہنا تھا، ”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارتی کرکٹ ٹیم اب براہ راست اور بالواسطہ دونوں ہی طرح سے بڑی تیزی سے سیاسی اظہار کے ليے استعمال کی جانے لگی ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے خلاف حملے کو خراج تحسین پیش کرنے کے ليے ایک سيریز کے دوران پوری بھارتی کرکٹ ٹیم نے فوجی ٹوپیاں پہنی تھیں۔ ورلڈ کپ میں بھی دھونی نے فوج کے ایک یونٹ کے نشان والے دستانے پہنے تھے، جس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا۔" بینو جون کہتے ہیں، ”ہو سکتا ہے کہ بھگوا رنگ کی جرسی کے پیچھے کوئی سیاسی سازش نہ ہو لیکن سیاسی رنگ دینے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کے چھینٹے بھارتی ٹیم پر ضرور پڑیں گے۔"

دریں اثنا سوشل میڈیا پر بھی اس نئی جرسی کے حوالے سے جنگ چھڑ گئی ہے۔ ایک حلقہ نئی جرسی میں بھارتی کھلاڑیوں کو اسمارٹ قرار دے رہا ہے تو دوسرا حلقہ انہیں 'جوکر‘ بتا رہا ہے۔

پاکستان - بھارت مقابلہ اور صحافیوں کی مشکلات