1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولپاکستان

کرو تم بھریں ہم

10 ستمبر 2022

پاکستان میں موجودہ سیلاب نے اگرچہ ہر ڈوبنے والی شے ڈبو دی ہے مگر پانی پر ایک اہم سوال کی پھولی لاش بھی تیر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Gf7M
News Blogger Wusat Ullah Khan
وسعت اللہ خانتصویر: privat

سوال یہ ہے کہ  تباہی کی بنیادی ذمہ داری ہماری اپنی بدانتظامی، بدنیتی، بدعنوانی، ماحولیاتی غیر سنجیدگی اور نیم دلانہ کوششوں پر عائد ہوتی ہے یا دراصل اُن چند ممالک  کے  گناہوں کا ملبہ ہم پر گر رہا ہے، جو وسائل کے بے تحاشا استحصال سے خود تو دولت کمائیں جبکہ نتائج ہماری سمت دھکیل دیں اور پھر اس کا ازالہ کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں۔
نظامِ فطرت کا چہرہ مسخ کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ان ممالک کا ہے، جنہوں نے اندھا دھند صنعت کاری کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کو کروڑوں ٹن کے حساب سے پہلے کرہ ارض کی تحفظاتی فضا میں بھیجا اور اب یہ گیسیں  درجہ حرارت میں اضافے، فصلوں اور حیاتیاتی دولت کی بربادی، خشک سالی، قحط، بن موسم بارش اور وحشی سیلابوں کی شکل میں قسط وار قیامت ان ممالک پر ڈھا رہی ہیں، جو ماحولیاتی ابتری کی گیم سے یکسر باہر ہیں۔ 
تازہ ترین ماحولیاتی بربادی کے حجم کے اعتبار سے اس وقت پاکستان مرکزِ نگاہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پچھلے پچھتر برس میں یہاں جنگلاتی رقبہ تینتیس فیصد سے کم ہو کے محض چار فیصد رہ گیا حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جنگلات زمین کو سیلابی حملوں سے بچانے کی جدوجہد میں قدرت کا ہر اول دستہ ہیں۔ 
جتنا سبزہ کم ہو گا، اتنا ہی درجہِ حرارت بڑھے گا۔ درجہ حرارت بڑھنے سے پہاڑوں پر پڑی برف پگھلے گی،  برف پگھلے گی تو پانی کی غیر معمولی مقدار سیلابی شکل اختیار کرے گی اور اگر اس پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی معقول انتظام نہیں تو پھر یہ سیدھا سمندر کی سطح میں اضافہ  کرے گا اور سمندر خشکی سے انتقام لے گا۔ رقبہ کم ہو گا تو وسیع پیمانے پر انسانی نقلِ مکانی شروع ہو گی۔ 
جب  برف کم ہوتی جائے گی تو سال بہ سال پانی کی مقدار گھٹتے گھٹتے دریا بھی خشک لکیروں میں بدل جائیں گے اور انسان العطش العطش کرتا ادھر سے ادھر بھاگے گا اور پھر گر پڑے گا۔ 

پاکستان میں پچاس کے عشرے میں ہر شخص کے لیے پانچ ہزار مکعب میٹر پانی دستیاب تھا، جو آبادی کے بے تحاشا بڑھنے کے سبب اب نو سو مکعب میٹر فی کس رہ گیا ہے۔ یعنی ہم ان ممالک کی صف میں شامل  ہیں، جہاں پانی کا قحط بقائی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس فلم کا اختتام بلاخر پانی کی پسپائی اور خشکی کی ماری لق و دق چٹخی زمین کی شکل میں ہو گا۔ 
اس وقت پاکستان ان دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر ترین اثرات کی زد میں براہ ِ راست ہیں۔ ان دس میں سے چھ ممالک ( چاڈ ، نائجر، کینیا، ملاوی،  سوڈان، صومالیہ ) براعظم افریقہ میں ہیں۔ تین ممالک ( افغانستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش ) ایشیا میں اور ایک ( ہیٹی ) امریکی براعظم کے کیربین خطے میں ہے۔ 
پاکستان میں گزشتہ بیس برس کے دوران قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش سلسلوں میں برف سے مستقل ڈھکے رقبے کا حجم پندرہ ہزار ہیکٹر سے سکڑ کے دس ہزار ہیکٹر رہ گیا ہے۔ اس عرصے میں گلیشیرز  کے پگھلاؤ اور ان کے پھٹنے سے بننے والی چھوٹی بڑی جھیلوں کی تعداد پچاس سے بڑھ کے باسٹھ تک پہنچ گئی ہے۔ ان تبدیلیوں سے جڑے معاشی نقصانات کا حجم کم ازکم چار ارب ڈالر  بتایا جا رہا ہے۔ 
افغانستان میں انیس سو پچاس سے دو ہزار دس کے ساٹھ برس میں اوسط درجہِ حرارت میں ایک عشاریہ آٹھ سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔ بارشوں میں چالیس فیصد تک کمی ہو گئی ہے اور برف تیزی سے پگھلنے اور نئی برف کی مقدار میں کمی کے سبب سیلابوں کی کثرت دوگنی ہو گئی ہے۔ 
بنگلہ دیش کو گزشتہ بیس برس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے طفیل پونے چار ارب ڈالر کا دھچکا لگ ہے۔ بنگلہ دیش کے گیارہ فیصد رقبے کو دو ہزار پچاس تک سمندر نگل جائے گا اور ہر ساتویں بنگلہ دیشی کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔ 

افریقی ملک چاڈ میں اس برس گزشتہ تیس سال کے مقابلے میں غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں۔ نصف صدی کے دوران ملک کی سب سے بڑی جھیل چاّڈ  کا نوے فیصد رقبہ تواتر سے آنے والی خشک سالی نے ہتھیا لیا ہے۔ 
عالمی بینک  اور اقوامِ متحدہ سے جڑے ذیلی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ  کینیا، صومالیہ، ایتھوپیا، جبوتی اور اریٹیریا پر مشتمل قرنِ افریقہ اور سوڈان میں  پانچ برس کی مسلسل خشک سالی اب ایک اور بڑے قحط میں بدل رہی ہے اور ساڑھے چھ کروڑ سے زائد آبادی براہ راست اس کی زد میں ہے۔
عالمی ادارہِ خوراک نے اس منڈلاتے بحران سے نمٹنے کے لیے اگلے چھ ماہ  کے دوران  کم ازکم ساڑھے چار سو ملین ڈالر کی ہنگامی اپیل کی ہے۔ روس یوکرین جنگ کے نتیجے میں اناج اور توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے ماحول میں اگر اس اپیل سے پچاس فیصد رقم بھی اکھٹی ہو جائے تو معجزہ  ہو گا۔ 
دو ہزار انیس میں جنوب ہائے افریقہ کے تین ممالک موزمبیق، زمبابوے اور ملاوی کے تیس لاکھ سے زائد باشندوں کو اپنی تاریخ کے سب سے شدید سمندری طوفان لڈائی نے ادھ موا کر دیا۔ نقصان کا اندازہ لگ بھگ ڈھائی ارب ڈالر ہے۔ یہاں کی اسی فیصد آبادی کا دار و مدار زراعت پر ہے۔ 
کیریبین ملک ہیٹی میں اٹھانوے فیصد جنگلات ختم ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اب چھیانوے فیصد آبادی براہ راست سمندری طوفانوں کی زد پے ہے۔ دو ہزار دس کے زلزلے نے ہیٹی کے ڈھائی لاکھ باشندے نگل لیے اور معیشت کو کل سالانہ قومی آمدنی کے ایک سو بیس فیصد کے برابر نقصان اٹھانا پڑا جبکہ دو ہزار سولہ کے سمندری طوفان میتھیو سے ہونے والے نقصان کا اندازہ سالانہ قومی آمدنی کے تیس فیصد کے برابر ہے۔ گویا پہلے سے مرا گرا ہیٹی اب  کسی بھی نئے ماحولیاتی جھٹکے سے جانبر ہونے کے قابل نہیں رہا۔ 
فرض کریں کہ جن دس ممالک کو ماحولیات سے سب سے زیادہ بقائی خطرہ لاحق ہے۔ اگر وہ کل شام تک سو فیصد ماحولیات دوست پالیسیاں اپنا لیں تو کیا بچ نکلیں گے؟ یہ دس کے دس ممالک مجموعی طور پر گرین ہاؤس گیسوں اور کاربن میں ایک فیصد سے بھی کم عالمی اضافہ کرنے کے مجرم ہے۔ مگر انہیں کن کن کے گناہوں کی سزا مل رہی ہے؟ ذرا ملاحظہ فرمائیے! 
اگر صرف چین، امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کو ہی لے لیا جائے تو آدھے سے زیادہ ( تریپن فیصد )  ماحولیات دشمن کاربن یہ چاروں فریق مل کے پیدا کر رہے ہیں۔ اگر اس فہرست میں بھارت، روس، جاپان، جنوبی کوریا، سعودی عرب، کینیڈا، برازیل، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا،  آسٹریلیا، ایران اور ترکی کو بھی جوڑ لیا جائے تو یورپی یونین میں شامل ستائیس ممالک سمیت کل بیالیس ممالک  کا مضرِ ماحولیات گیسوں کے اخراج میں مجموعی عالمی حصہ لگ بھگ بیاسی فیصد بنتا ہے۔ 
اور اگر اسی فہرست میں ہوا بازی اور جہاز رانی کو بھی درج کر لیں تو پھر یہ دنوں شعبے جمع  بیالیس ممالک مضر گیسوں کا ساڑھے پچاسی فیصد پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ اقوامِ متحدہ کے رکن ایک سو نوے ممالک میں سے ایک سو اڑتالیس ممالک صرف ساڑھے چودہ فیصد آلودہ گیسیں پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ 

گویا جب تک بنیادی قصور وار اڑتالیس ممالک اپنی پالیسیوں کو ماحول دوست نہیں بناتے، تب تک باقی ایک سو اڑتالیس ممالک بھلے سو فیصد ہی ماحول دوست کیوں نہ ہو جائیں، دنیا آنے والی قیامت سے نہیں بچ سکتی۔ 
صرف چین اور امریکہ ہی اپنی صنعت و زراعت میں کاربن کے اخراج کو معقول و متفقہ سطح تک لے آئیں تو اس کرہِ ارض کی بربادی کا امکان اب بھی نصف ہو سکتا ہے۔ 
یہ دونوں طاقتیں بھی اپنے کیے کا مزہ چکھ رہی ہیں۔ چین میں اوسط درجہِ حرارت گزشتہ برس کی نسبت ایک اعشاریہ دو سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور  ڈھائی سو کے لگ بھگ علاقوں میں گزرا جولائی اور اگست گرم ترین مہینے قرار پائے۔ جبکہ یورپ سے شمالی امریکہ تک بیشتر علاقے اس برس پہلے سے شدید گرمی کا شکار ہوئے ہیں۔ 
اس دنیا کو ماحولیات دشمن گیسی اخراج شاید اتنی جلد ختم نہ کر سکے مگر آپس کی بدنیتی، بے اعتباری اور ہر قیمت پر ناک اونچی رکھنے کی بیماری یقیناً  صدی کے اختتام تک کرہِ ارض کو ناقابلِ رہائش بنا ڈالے گی۔ ہم جیسے ممالک اس عالمگیر بے وقوفی کے اولین ہلاک شدگان میں شامل ہوں گے لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔ 
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں!

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔