1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرسمس کے روز عراقی مسیحیوں پر حملے

عدنان اسحاق 25 دسمبر 2013

بدھ پچیس دسمبر کو عراقی دارالحکومت کے مسیحی آبادی والے علاقے میں ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم 35 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ دہشت گردوں نے ایک کلیسا کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

https://p.dw.com/p/1AggA
تصویر: picture-alliance/dpa

عراقی پولیس کے مطابق ایک بم دھماکہ اس وقت ہوا، جب لوگ چرچ میں عبادت کے بعد باہر آ رہے تھے۔ یہ بم جنوبی بغداد کے علاقے الدورہ میں واقع اس چرچ کے قریب کھڑی ایک کار میں نصب کیا گیا تھا۔ اس واقعے میں تقریباً 35 افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 50 سے زائد ہے۔ کسی بھی گروپ نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ایک پولیس کرنل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’دہشت گردوں نے ایک چرچ کو نشانہ بنایا اور ہلاک و زخمی ہونے والے زیادہ تر افراد مسیحی ہیں‘‘۔

عراقی وزارت داخلہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں زور دے کر کہا کہ اس بم حملے کا نشانہ چرچ نہیں بلکہ ایک بازار تھا۔ بغداد کے سینٹ جوزف چرچ کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر کوئی حملہ مذہب کے نام پر کیا جائے تو اس سے مذہب اور اس کے ماننے والوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ کلیسا محبت اور امن کی جگہ ہے نہ کہ ہنگامہ آرائی کی‘‘۔

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عراق میں پر تشدد واقعات اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ سخت گیر موقف کے حامل اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے منسلک افراد اکثر شیعہ آبادی کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس دوران مسیحی اقلیت پر بھی حملے کیے جاتے رہے ہیں۔

گزشتہ برسوں کے دوران عراق میں ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ سے عراقی مسیحی زیادہ سے زیادہ تعداد میں ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور یوں مسیحی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2003ء سے قبل عراق میں ایک اور ڈیڑھ ملین کے درمیان مسیحی آباد تھےجبکہ اب یہ تعداد کم ہو کر نصف ملین کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں برس کے دوران اب تک ساڑھے چھ ہزار سے زائد افرد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔