1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگو ملیشیا کے خلاف ایک امن پسند کی جنگ

ڈرکے، کیوپے، کشور مصطفیٰ27 دسمبر 2013

ایک جرمن سفارت کار مارٹن کوبلر افریقی ملک کانگو میں اقوام متحدہ کی طرف سے تعینات کیے گئے دنیا کے سب سے بڑے مشن کی گزشتہ چار ماہ سے سربراہی کر رہے ہیں۔ ان کا کام آسان نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1AhVR
تصویر: Dirke Köpp

اس وسطی افریقی ملک کے مشرقی حصے میں قریب گزشتہ 20 برسوں سے جنگ جاری ہے۔ ان حالات میں ایک امن پسند سفارت کار اپنے نظریات کے تحت وہاں بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مارٹن کوبلر ظلم و تشدد کرنے اور اس کا شکار ہونے والے، دونوں سے واقفیت رکھنے جیسے نظریات کے حامل ہیں اور انہی کے تحت اپنا کام انجام دینا چاہتے ہیں۔ اگست 2013ء سے مارٹن کوبلر ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں اقوام متحدہ کے ملٹری مشن برائے استحکام MONUSCO کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ان کی نگرانی میں 20 ہزار یو این فوجی اپنا مشن انجام دے رہے ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں سے مشرقی کانگو کے عوام کو باغی گروپوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سامنا ہے۔ یہ خطہ ارض قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے اور یہی وجہ ہے اس علاقے میں بدامنی اور طاقت کے حصول کی جنگ کے جاری رہنے کی۔

Martin Kobler Chef der UNO-Mission Kongo
مارٹن کوبلر کی سربراہی میں 20 ہزار یو این فوجی اپنا مشن انجام دے رہےتصویر: Dirke Köpp

اقوام متحدہ کا یہ فوجی مشن مشرقی کانگو میں 14 سال سے جاری ہے۔ نہ تو یہ مشن کوئی خاطر خواہ کارنامہ انجام دے سکا نہ ہی اس کی شہرت اچھی رہی۔ گزشتہ قریب چار مہینوں سے MONUSCO مشن کو ایک قوی تر مینڈیٹ کے ساتھ 3000 اہلکاروں پر مشتمل ایک ’انٹروینشن بریگیڈ‘ کی شکل دے دی گئی ہے اور جرمن سربراہ مارٹن کوبلر کی نگرانی میں یہ سرگرم ہے۔ کوبلر نے یہ ذمہ داری سنبھالتے ہی کانگو کے جنگجوؤں سے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ کوبلر خود کو گرچہ امن پسند کہتے ہیں تاہم ان کے پاس دو چیزوں کی کوئی معافی نہیں دی جاتی۔ اُن کے بقول،’’بچوں کو بطور فوجی اور بڑے پیمانے پر آبروریزی کو بطور جنگی حربہ استعمال کرنا، یہ سب جنگی جرائم ہیں اور ان کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اپنے مینڈیٹ کے تحت ہم ان جرائم کے خلاف سخت اقدامات کریں گے اور ہمارا عمل اور رد عمل دونوں ہی فوجی طریقے سے ہوگا۔‘‘

مارٹن کوبلر جرمن ہیں اور ان کی پیدائش 60 سال قبل جرمن شہر اشٹُٹ گارٹ میں ہوئی۔ انہوں نے لاء کے علاوہ جرمنی اور انڈونیشیا سے ایشیائی لسانیات کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں سفارتکاری کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ کوبلر مصر، بھارت، فلسطینی علاقے، بوسنیا میں کام کر چُکے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ عراق اور افغانستان میں بھی متعین رہ چُکے ہیں۔ رواں برس مارٹن کوبلر کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کانگو مشن MONUSCO کا سربراہ اور کانگو کے لیے خصوصی مندوب مقرر کیا۔

Martin Kobler Chef der UNO-Mission Kongo Besuch Schule
مارٹن کوبلر کانگو میں ایک اسکول کے دورے پرتصویر: Dirke Köpp

کوبلر سات بار کیگالی جا چُکے ہیں جہاں کے ہمسائے ملک روانڈا پر الزام ہے کہ وہ M23 ملیشیا کی مالی معاونت کرتا رہا ہے۔ کوبلر کو اس امر کا ادراک ہے کہ کانگو میں امن کے حصول کے لیے انہیں اس کے پڑوسی ممالک کا تعاون چاہیے۔ اس کے لیے وہ غیر محسوس طریقے سے روانڈا کے صدر پاول کاگام کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ مارٹن کوبلر کو ریاستی سربراہ جوزف کابیلا کے ساتھ ساتھ غیر معمولی اہمیت کی حامل دوسری بڑی شخصیت سمجھتے ہیں۔ کوبلر اپنے مشن کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’ہم یہاں کانگو کے عوام کی خدمت پر مامور ہیں۔ ہم اس ملک کے حکمران کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ اس کے برعکس ہماری کوشش ہے کہ دوسرے اس ملک پر حکمرانی کریں اور ہم اُن کے معاون کا کردار ادا کریں۔‘‘

کوبلر کے خیال میں MONUSCO، کانگو کی آرمی اور حکومت کے لیے سب سے کٹھن کام امن کا قیام ہے۔