کانگو بحران : اقوام متحدہ اور افریقی ممالک کے وفود کی ملاقات
7 نومبر 2008ڈیموکریٹک ری پبلک کانگو کے شمالی علاقوں میں باغیوں اور فوج کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ یہ لڑائی روانڈا کے سرحدی علاقوں تک پھیل چکی ہے۔
کانگو کے شمالی علاقوں میں باغی رہنما لورینٹ نکونڈا اور کانگو کی افواج کے مابین جاری لڑائی روانڈا کے سرحدی علاقوں تک پھیل چکی ہے۔ دونوں جانب سے پرتشدد کارروائیوں کے باعث متاثرہ علاقوں کے ہزاروں باشندے اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
اجلاس سے قبل بان کی مون نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ فریقین پر زور دیں گے کہ تنازعات کے حل کے لیے امن کا راستہ اختیار کیا جائے۔
دوسری جانب فریقین کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کانگو کے صدارتی ترجمان نے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ روانڈا، کانگو کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی بند کرے۔ انہوں نے کہا کہ کانگو کے صدر اور باغیوں کے درمیان مذکرات اس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں جبکہ روانڈا نے کانگو پر ہوٹو کے باغیوں کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ باغی رہنما نکونڈا کا ساتھ نہیں دے رہے۔
کانگو کے صدارتی ترجمان نے اقوام متحدہ کی امن فوج کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امن فوج شمالی علاقوں میں لڑائی کے باعث باغیوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کا سلسلہ نہیں روک پائی۔
کانگو کے شمالی علاقوں میں بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر عالمی برادری بھی مسئلے کے جلد حل پر زور دے رہی ہے جبکہ بان کی مون نے سلامتی کونسل کے کانگو مشن کے لیے تین ہزار مزید فوجی مزید بھیجے جانے کی درخواست کی ہے۔ اقوام متحدہ کے 17 ہزار فوجی پہلے ہی کانگو میں موجود ہیں۔
باغیوں کی کارروائیوں سے علاقے میں پرتشدد وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ امدادی ادارے ڈھائی لاکھ پناہ گزینوں کو خوراک اور ادویات مہیا کرنے میں مصروف ہیں۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مشرقی کانگو کے متاثرہ علاقوں میں ایک ملین سے زائد بے گھر افراد میں سے بیشتر ابھی تک امدادی سامان کے منتظر ہیں۔
اسی دوران جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے برلن میں کانگو اور روانڈا کی حکومتوں سے اپیل کی کہ انہیں اس مسئلے کے حل کے لئے نیروبی میں ہونے والی بحرانی سربراہی کانفرنس میں کوئی قابل عمل تجاویز پیش کرنا چاہئیں۔