1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کامیاب عورت اور ناکام ازدواجی زندگی

5 فروری 2021

خواتین کے بارے میں یہ سوچ کیوں پائی جاتی ہے کہ ورکنگ وومن یا خود مختار خواتین گھر نہیں بسا سکتیں؟ حالانکہ شادی کے بعد نوکری کرنے والے مرد سے زیادہ قربانی دے رہی ہوتی ہے۔ منہا حیدر کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3owda
تصویر: Privat

ثنا اور ہادی دونوں میاں بیوی زمانے کے ساتھ ہمقدم ہونے، اپنی بقا اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے نوکری کرتے تھے۔ شروع میں ثنا کی نوکری پر خاندان کی طرف سے کچھ اعتراضات ہوئے پر ہادی نے یہ کہہ کر سب کو چپ کروا دیا کہ وہ کفالت میں میرا ہاتھ بٹانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔ دوسری طرف ثنا کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس کے تعلیم یافتہ ہونے کا کیا فائدہ کہ اس کی اولاد اچھی تعلیم اور آسائشوں سے محروم رہے۔

شروع میں سب اچھا تھا پر آہستہ آہستہ تلخیاں پیدا ہونی شروع ہو گئیں۔ گھر کے کام وقت پر نہ ہونے کے شکوے، بچوں پر پہلے جیسی توجہ نہ ہونے کا غصہ اور ہادی کو وقت نہ ملنے پر شدید کوفت ہونا شروع ہو گئی۔ مگر اب ثنا کا نوکری چھوڑنا ممکن نہ تھا کیونکہ تنخواہ کے نام پر آنے والی رقم اب گھر کے اخراجات کا لازمی حصہ بن چکی تھی۔ اس بات کا ثنا کو احساس تھا۔ جہاں ثنا نے گھر کی ذمہ داریوں میں حصہ لیا، وہیں غیر محسوس طریقے سے ہادی بچوں کی طرف سے قدرے لاپرواہ ہوتا  گیا۔ اس دوران ثنا بچوں کی فیس، کپڑے، کچن گروسری اور گھر کے کئی دوسرے اخراجات میں برابر کی حصہ دار بن گئی۔

مسائل تب بڑھنے شروع ہوئے جب ثنا ذمہ داریوں میں تو حصہ دار کہلائی  مگر  جب اس کی ذات اور احساس کی بات آئی تو وہاں  اسے یہ  کہہ کر نظر انداز کر دیا گیا کہ یہ تو بہت ہمت والی ہے عام عورتوں جیسی نہیں، سہہ لے گی برداشت کر لے گی۔ طبعیت خراب ہو یا ٹھیک اب نوکری چھوڑی نہیں جاسکتی تھی۔

جہاں انتھک محنت سے اس کی ترقی ہوئی، اعتماد بڑھا اور اس نے نوکری کی وجہ سے بہتر پہننا اوڑھنا شروع کیا۔ وقت کی قلت کے باعث خاندانی سیاست سے دور ہوتی چلی گئی۔ اس موقع پر کسی نے ہادی کے ذہن میں یہ کڑوا بیج بو دیا کہ بیوی ہاتھ سے نکل گئی ہے اور تمہاری دسترس سے نکلنے کے لیے یہ سارے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے۔ بات بات پر شک اور جرح کی جانے لگی اور گھر میں ایک سرد جنگ سی چھڑ گئی۔ نوکری کے بعد اب وہ فقط پیسے کمانے کی مشین تھی۔

آفس کے بعد ٹی وی، دوستوں کے ساتھ گپ شپ اور آؤٹنگ وغیرہ ہادی کے معمولات ویسے ہی چلتے رہے پر ثنا کی ذمہ داریاں دہری ہو گئیں۔ جہاں اس سے کفیل کی حیثیت سے فرائض پورے کرنے کی امید رکھی جاتی وہاں اس کے لیے احساس ختم ہوتا گیا اور حقوق اتنے بھی نہ رہے جتنے نوکری سے پہلے تھے۔ اس دوران ہادی نے اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے کرتے ثنا کے آنکھوں میں اپنی وقعت مزید کم کر دی۔

ہادی اپنے خاندان  میں سب سے چھوٹا تھا پر اپنی ازدواجی زندگی میں وہ اپنے گھر کا سربراہ اور کفیل تھا، ثنا کی روزمرہ ضروریات کے ساتھ وہ اس کی جذباتی ضروریات کو بھی بالکل نظر انداز کرنے لگا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ثنا روز روز کی بحث سے تنگ آکر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ہادی کا اس کی زندگی میں ہونا یا نا ہونا ایک برابر ہے اورہ وہ روز روز کی لڑائیوں سے اپنے ذہنی سکون اور اپنی پروفیشنل زندگی کو کیوں تباہ کرے ۔وہ یہ موازنہ کرنے پر مجبور ہو گئی کہ مشکل وقت میں نوکری اور تعلیم اس کے کام آئی اور جب بھی اس کو جذباتی یا اخلاقی سہارے کے لیے ہادی کی ضرورت پڑی تو وہ اس کو ایک مخالف محاذ پر ہی دکھائی دیا۔

اس نہج پر پہنچ کر ثنا علیحدگی کے بارے میں سوچنے لگی کہ جب ایک تعلق کے ہوتے ہوئے بھی وہ مکمل تنہا ہے، نوکری کے بغیر گزارہ بھی نہیں، سسرال والے نہ تو اخراجات میں کوئی مدد کرتے ہیں بلکہ الٹا اپنے اعتراضات سے اسی کو مشق ستم بنائے رکھتے ہیں اور بچے بھی ہر وقت کی لڑائیوں سے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں تو بہتر ہے کہ  کہ پرسکون اور بہتر مستقبل کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا جائے۔

ہادی اور ثنا چاہے فرضی کردار ہوں پر اکثریت ورکنگ وومن کی علیحدگی یا طلاق کی وجہ یہی عناصر ہوتے ہیں، عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ جذباتی واقع ہوئی ہے اور وہ گھر بنانے اور اسے بچائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ میاں بیوی گاڑی کے دوپہیے کہلائے جاتے ہیں پر اگر سارا بوجھ ایک ہی طرف منتقل ہو جائے اور کوئی جذباتی وابستگی بھی نہ بچے، کمیونکیکیشن گیپ یا بات چیت متاثر ہو جائے اور احساس کی بجائے انا کی دیواریں خلیج پیدا کر دیں تو انجام کچھ بہتر نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ عورت اور مرد کی نوکری میں بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مرد باہر سے کام کر کے واپس آئے تو اس کو کچھ دیر ہی سہی پر آرام کی سہولت ضرور مل جاتی ہے پر عورت باہر سے کام کرکے بھی آئے تو گھر پہ پھر ایک ہاؤس وائف والی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑتی ہیں۔

ہمارے ہاں عورت کو امپاور کرنے پہ بات کی جاتی ہے کہ عورت معاشی طور پر مضبوط ہو جائے، پر ابھی مرد کی یہ تربیت شروع نہیں ہوئی کہ معاشی طور پہ خودمختار عورت کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔جو شریک حیات اپنی توانائیاں اولاد اور گھر کی بہتری پر نچھاور کر رہی ہو تو وہ شک، جرح اور بحث کی بجائے زیادہ احساس اور محبت کی حقدار ہوتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہمیشہ گھر یا تعلق ٹوٹنے کی ذمہ داری صرف مرد پر ہی عائد ہو، معاملات اس سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ گھر وہ جائے سکون ہے جہاں انسان تمام کاروبار دنیا کے غموں سے تسکین اور آسودگی کی تلاش  کرتا ہے، اب اگر گھر میں ہر وقت  پیسے یا خرچوں پہ بحث ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ دونون کفالت کا بوجھ اٹھائیں اور اگر پھر بھی بحث شدت اختیار کر جائے تو پھر انسان سکون اور فرار کیلیے کہاں جائے؟

اردگرد کے ٹوٹے گھروں سے یہی مشاہدہ سامنے آیا ہے،کہیں ایک تحریر پڑھی کہ عورت کو  خدا نے اس وصف سے نوازا ہے کہ آپ اس کو کوئی بھی چیز دو، وہ اس کو دگنا کر کے لوٹائے گی۔ آپ اس کو کچن کی گروسری لا دیں وہ آپکو بہترین کھانا دے گی، آپ اسے سیمنٹ، ریت، اینٹوں سے بنی عمارت دیں وہ اسے گھر بنا دے گی۔ آپ فقط نطفہ دیں وہ اولاد جیسا تحفہ دے گی، پر جب آپ اس کی ناقدری کریں،بے حسی اور تحقیر کی مار ماریں گے تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس کے ردعمل میں آپکو بھی پھر ایسی ہی کوئی سوغات ملے گی۔

 آئے دن ڈراموں اور ہمارے معاشرے کے چند عناصر ورکنگ وومن یا خود مختار عورتوں کے خلاف ذہن سازی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کام کرنے والی خواتین گھر نہیں بنا سکتیں، باہر کی دنیا کی چکا چوند سے متاثر ہو کر گھر کا سکھ تیاگ دیتی ہیں اور اس طرح کی ایک خاص قسم کی تنگ نظر سوچ پروان چڑھتی ہے۔

بس گزارش فقط اتنی ہے کہ اگلی بار جب کسی عورت کے بارے میں اس طرح کی کوئی ناقص رائے پیش کرنے لگیں تو دس منٹ نکال کر یہ ضرور سوچیں کہ وہ اپنے گھر اور اولاد کے سکھ کی خاطر کیا کچھ تیاگ رہی ہے اور کیا اسے اس کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ اتنی مشقت کا کوئی بھی صلہ مل رہا ہے ؟ اور پھر اپنی بہن یا بیٹی کو کچھ دیر کے لیے ان حالات میں بھی تصور کریں کہ کیا آپ چاہیں گے کہ کفالت اور گھر داری کے باوجود وہ ذلیل و خوار ہی رہے یا اپنی بہن اور بیٹی کے شوہر کر روپ میں ہادی جیسے کسی مرد کا تصور کر لیں۔ اس کے بعد بھی ضمیر اگر گوارا  کرے تو طعنے تشنوں کی سنگ باری اور  کردار کشی سے ایسی عورتوں کی زندگی مزید مشکل  بنائیے۔