1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسجرمنی

ارتقا؟ عظیم دھماکے سے عظیم اور تاریک انجماد تک

عاطف توقیر
21 مارچ 2021

ہم جس کائنات میں آج رہ رہے ہیں، یہ کائنات گزرے ہوئے کل سے بھی مختلف ہے اور آنے والے کل سے بھی۔ آئیے کائنات کے اس مسلسل ارتقائی سفر پر نگاہ ڈالیں۔

https://p.dw.com/p/3qrkb
Bilder vom Universum
تصویر: NASA/Cover Images/picture alliance

کائنات کا کل کیا تھا اور کائنات کا کل کیا ہو گا، یہ آج کا شاید سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔ کائنات کا تیزی سے پھیلاؤ یہ بتا رہا ہے کہ یہ کائنات کبھی فقط ایک نکتے میں سمٹی ہوئی تھی۔ اس ایک نکتے سے اس کا پھیلاؤ شروع ہوا اور پھر ایک لامتناہی سفر شروع ہو گیا۔ بگ بینگ یا عظیم دھماکا کائنات کے اس بڑے ایونٹ کا نام ہے، جس کے ساتھ ہی ، توانائی، وقت، خلا اور پھر ذرات حتیٰ کے مادے کی کہانی کا آغاز ہوا۔

اربوں سال پرانا کائناتی جھرمٹ دریافت

عظیم کائناتی جھرمٹ، اب کائنات کیسے سمجھ آئے؟

بگ بینگ یا عظیم دھماکا

بگ بینگ سے قبل کیا تھا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کی بابت اندازے تو لگائے جا سکتے ہیں، مگر حتمی رائے دینا آسان نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ تمام تر انسانی رائے، مشاہدہ اور نظریات کی بنیاد زمان و مکان سے جڑی ہے، مگر بگ بینگ سے قبل  نہ زماں تھا اور نہ مکاں۔

تاہم اس دھماکے کے بعد کے ایک ثانیے کے ایک اربویں حصے میں کیا کچھ ہوا؟ اس بابت کسی حد تک ٹھوس بات کی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تمام تر سائنسی معلومات کی بنیاد مشاہدات و موجود شواہد پر ہوتی ہے تاہم سائنسی نظریات نہ سوالات سے مبرا ہیں اور نہ ہی ان میں تغیر یا تبدیلی کی گنجائش کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

کائنات کی ابتدا سے متعلق اب تک کا سب سے مسلمہ نظریہ 'بگ بینگ تھیوری‘ ہے۔ یعنی یہ کائنات ایک دھماکے کے ذریعے وجود میں آئی اور تب سے اب تک پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ بگ بینگ کے ساتھ ہی کائناتی نظم کی ضامن چار بنیادی قوتیں تجاذب، الیکٹرومیگنٹزم، کمزور قوت اور طاقت ور قوت، ایک  ایک کر کے خود سے الگ ہوئیں۔

Hubble Bilder Bislang tiefstes Bild vom Universum
اس تصویر میں ہزار ہا کہکشائیں دیکھی جا سکتی ہیںتصویر: AP

کائنات فقط ملکی وے؟

ایک مدت تک انسان کی نگاہ میں اس کی اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے یا 'دودھیا راستہ‘  ہی کل کائنات تھی، تاہم پچھلی صدی میں یہ بات واضح ہوئی کہ کائنات ملکی وے سمیت چھوٹی بڑی اربوں کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔

بڑے بڑے ستارے

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ بگ بینگ کے بعد ابتدا میں تجاذبی قوت کے سبب کمیت مختلف مقامات پر مرتکز ہوئی جس کی بنا پر ستارے بنے، تاہم یہ ستارے بہت بڑے بڑے تھے۔ کوئی ستارہ جتنا بڑا ہوا گا، اس کے خاتمے کی رفتار بھی اتنی ہی تیز ہو گی۔ یہ ابتدا ستارے سپر نووا دھماکوں کے ذریعے پھٹے اور اس طرح کہکشائیں وجود میں آتی چلیں گئیں۔

آج اربوں کہکشکائیں

سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق اس وقت کائنات میں دو سو ارب سے زائد کہکشائیں موجود ہیں، جو ایک دوسرے سے دور ہٹتی جا رہی ہیں۔ کہکشاؤں کی ایک دوسرے سے دور ہٹنے کی رفتار اور اسراع سے متعلق جانچ کے لیے وہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، جو قریب آتی آواز اور دور جاتی آواز (جیسے کوئی ایمبولینس سائرن بجاتی چل رہی ہو تو آپ سنتے ہوئے یہ فرق کر سکتے ہیں کہ وہ قریب آ رہی ہے یا دور جا رہی ہے) کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ یعنی طول موج کا فرق۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کہکشائیں نہ صرف ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں، بلکہ ان کی ایک دوسرے سے دور جانے کی رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے، یعنی ان کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سائنسدان یہ بھی سمجھتا ہے کہ اصل میں یہ رفتار کہکشاؤں کی نہیں بلکہ کہکشاؤں کے درمیان موجود خلا کے پھیلنے کی ہے۔

30 Jahre  Hubble Weltraumteleskop
ہبل دوربین سے لی گئی ایک تصویر جس میں دو کہکشائیں سامنے ہیں، تاہم اس تصویر میں درجنوں دیگر کہکشائیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ تصویر: picture-alliance/dpa/Cover Images

روشنی کی رفتار سے بھی تیز؟

آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت کہتا ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے یا اس سے زائد رفتار سے سفر نہیں کر سکتی، تاہم یہ نظریہ خلا کے پھیلاؤ پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دور ہوتی کہکشائیں، مستقبل میں روشنی کی رفتار سے سفر شروع کر دیں گی اور اگر ایسا ہوتا ہے، تو ہم انہیں دیکھ نہیں پائیں گے۔

کائنات پھر ملکی وے ہی؟

ان کہکشاؤں کے روشنی کی رفتار سے دور ہٹنے کے بعد انسان کے لیے کل کائنات فقط وہ کہکشاں رہ جائے گی، جس میں وہ موجود ہو گا۔ ایسی صورت حال میں بگ بینگ نظریے کے آج موجود شواہد بھی ختم ہو جائیں گے، یعنی نہ ہمیں کہکشائیں دکھائی دے رہی ہوں گی، نہ ہی ان کے درمیان بڑھتا فاصلہ ماپا جا سکے گا اور نہ ہی ان کہکشاؤں کے درمیان اس بڑھتے فاصلے کی بنا پر بگ بینگ کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ فرض کیجیے انسان تب پیدا ہوتا، جب یہ کہکشائیں دکھائی نہ دے رہی ہوتیں، تو اس کے لیے کل کائنات فقط ایک کہکشاں ہوتی اور وہ کبھی اس نکتے پر نہیں پہنچ سکتا تھا کہ کائنات کی ابتدا بگ بینگ سے ہوئی۔

بگ بینگ آخر ہے کیا، بتائیں گے ایک پروفیسر

سوال لیکن یہ ہے کہ کیا ماضی میں بھی ایسا کچھ ہوا ہے، جس نے بگ بینگ یا اس سے قبل کے حالات کے سراغ مٹا دیے ہوں؟ اس سوال کا جواب شواہد کی روشنی میں شاید کبھی نہ دیا جا سکے، کیوں کہ ان مٹ جانے والے شواہد کی بات فقط اندازے ہی لگائے جا سکیں گے۔

کائنات کا کل کیا ہو گا؟

اس بابت سائنسدان ایک طویل عرصے تک بحث میں مبتلا رہے ہیں۔ سائنسدانوں کا ایک طبقہ یہ سمجھتا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر جس طرح کائنات بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، اسی طرح یہ ایک روز دوبارہ بگ کرنچ یا عظیم سکڑاؤ کی صورت میں دوبارہ بگ بینگ ہی کے مقام کی جانب لوٹے، تاہم سائنس دانوں کا ایک بڑا طبقہ اس نظریے کے مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کائنات لامتناہی حد تک پھیلتی چلی جائے گا اور اس کا حتمی نکتہ توانائی کی کمی اور بلآخر مکمل سیاہی اور عظیم انجماد کی صورت میں نکلے گا۔ یعنی ایک ایسا وقت جب تمام سورج، تمام ستارے بجھ چکے ہوں گے اور کائنات میں زندگی کی کوئی حدت باقی نہیں رہے گی۔

* ڈی ڈبلیو اردو سروس کی نئی سیریز ارتقا، جس میں مختلف اور عام اصطلاحات کا ارتقائی سفر تاریخ اور تحقیق کی روشنی میں صارفین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔