1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک میں ’برقعہ بین‘، سینکڑوں شہریوں کا احتجاجی مارچ

2 اگست 2018

ڈنمارک میں پورے چہرے کے پردے پر پابندی کے خلاف سینکڑوں ڈینش شہریوں نے احتجاجی مارچ کیا ہے۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ایک مذہبی اقلیت کو ہدف بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/32UCZ
Dänemark Protest gegen Burkaverbot in Kopenhagen
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Klug

قریب تیرہ سو مظاہرین نے بدھ کے روز کوپن ہیگن اور ڈنمارک کے دوسرے بڑے شہر آہوس میں چہرے کے پردے اور برقعے پر پابندی کے خلاف مارچ کیا۔ یہ پابندی ایک متنازعہ قانون کے ذریعے ڈنمارک میں یکم اگست سے نافذ کی گئی ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور ناقدین نے بھی ڈینش حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کو غیر منصفانہ طور پر ہدف بنایا گیا ہے اور مہاجرین مخالف جذبات کو ابھارا گیا ہے۔

احتجاج کرنے والے افراد نے خواتین کے حقوق کی ’خلاف ورزی‘ پر حکومت کی مذمت کی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت خواتین کو پابند نہیں کر سکتی کہ وہ کس طرح کا لباس پہن سکتی ہیں اور کس طرح کا نہیں۔

کوپن ہیگن میں ہوئے اس احتجاجی مظاہرے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ تمام مظاہرین برقعوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں کے سوا تمام چہرے کو بھی چھپا رکھا تھا۔

مظاہرین نے احتجاج کا آغاز دارالحکومت کوپن ہیگن کے وسطی ضلع نوریبرو سے کیا اور پھر مضافاتی علاقے میں واقع بیلا ہوگ پولیس اسٹیشن تک آئے جہاں انسانی ہاتھوں کی ایک زنجیر بھی بنائی گئی۔ ان مظاہرین میں مسلمان اور غیر مسلم ڈینش شہری شامل تھے۔

Dänemark Protest gegen Burkaverbot in Kopenhagen
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ritzau Scanpix/M.C. Rasmussen

اکیس سالہ ڈینش طالبہ سبینا جو خود بھی نقاب پہنے ہوئی تھیں اور اپنا پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں، نے روئٹرز کو بتایا،’’ ہم حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم امتیازی رویوں اور ایسے قانون کے سامنے نہیں جھکیں گے جو بالخصوص ایک مذہبی اقلیت کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘

ڈنمارک کی پانچ اعشاریہ سات ملین آبادی کا پانچ فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سبینا بھی ڈنمارک میں رہنے والی ان مسلم خواتین میں سے ایک ہیں جو برقعے اور نقاب پر عائد پابندی کے حالیہ قانون سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس قانون کے تحت پولیس عوامی مقامات پر خواتین سے نقاب اتروانے کی مجاز ہو گی۔

قانون کی پہلی بار خلاف ورزی کرنے پر خواتین کو ایک ہزار ڈینش کرونے جو 160 امریکی ڈالر کے برابر بنتے ہیں، اور بار بار اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو 10 ہزار کرونے یا 1600 امریکی ڈالر کے برابر تک بطور جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

ڈنمارک نے اپنے ہاں عوامی مقامات پر برقعے اور نقاب کے استعمال پر پابندی کا قانون رواں برس مئی میں منظور کیا تھا۔ تاہم اس قانونی مسودے کی منظوری کے بعد ڈینش حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس پابندی کا ہدف کوئی مذہب نہیں ہے۔

ص ح / ع ب / روئٹرز