1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈمنشیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کا انوکھا مرکز

ویرا کَیرن / کشور مصطفیٰ3 فروری 2014

جرمنی میں کلیسائی ادارے ڈیاکونی کی ایک شاخ شہر ڈسلڈورف میں بھی قائم ہے۔ اس کے ایماء پر شروع کردہ ایک ماڈل پروجیکٹ میں مریضوں کی دیکھ بھال کے ایسے ادارے کام کر رہے ہیں، جن کا ماحول بالکل کسی بھی گھر کے ماحول جیسا ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1B23h
تصویر: DW/V.Kern

جرمنی کی وفاقی وزارت صحت کے اندازوں کے مطابق اس ترقی یافتہ ملک میں ڈمنشیا یا مخبوط الحواسی کے شکار افراد کی تعداد قریب 1.4 ملین ہے۔ ماہرین کے اندازوں کےمطابق یہ تعداد 2030ء تک 2.2 ملین تک پہنچ جائے گی۔ اس اعصابی عارضے کے شکار افراد کے لواحقین کے لیے ایسے مریضوں کی 24 گھنٹے دیکھ بھال آسان نہیں ہے۔ ڈمنشیا کے مریضوں کے گھر والوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے کہ وہ اس بیماری کے مریض اپنے اہل خانہ کو گھر پر ہی رکھیں یا انہیں طبی دیکھ بھال کے مراکز میں داخل کرا دیں۔

اس بارے میں متاثرہ خاندانوں میں سے دوتہائی نے ڈمنشیا یا مخبوط الحواسی کے شکار اپنے رشتہ داروں کو گھر پر ہی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انسانی امدادی کاموں میں مصروف کلیسائی ادارے ڈیاکونی کے ایک رابطہ کار کلاؤس نیل تاہم ڈمنشیا کے مریضوں کی گھر پر دیکھ بھال کی مشکلات سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مخبوط الحواسی کے شکار مریضوں کے گھر والوں کے لیے مشکل امر یہ نہیں ہوتا کہ انہیں ایسے مریضوں کی 24 گھنٹے دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے بلکہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عارضہ مریض کی شخصیت کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ گھر والوں کو اس مریض کے ساتھ جو سلوک رکھنا پڑتا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ایک نیا کردار ادا کرنا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ یہ کردار کس طرح ادا کریں، جس کا انہیں پہلے سے کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ دوسرا اہم مسئلہ جذباتی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ مریض کے گھر والے مسلسل ایک احساس محرومی میں رہنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے اس عزیز کی شخصیت میں جو تبدیلی نظر آتی ہے، وہ کسی قیمتی چیز کو کھو دینے کے احساس سے کم نہیں ہوتی۔ ماں ہو، باپ یا پھر رفیق حیات، کسی کی شخصی تنزلی کو برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی کی جگہ اگر ڈمنشیا کے مریض کی دیکھ بھال کوئی اجنبی شخص کر رہا ہو تو اُسے ان جذباتی مسائل کا سامنا نہیں ہوتا۔‘‘

Bundesfreiwilligendienst Detail
یہ عارضہ مریض کی شخصیت کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیتا ہےتصویر: picture alliance / dpa

کلاؤس نیل کے خیال میں اپنے گھر کے افراد کے بجائے کسی غیر کو ڈمنشیا کے مریض کی دیکھ بھال پر مامور کرنے کا عمل دانشمندانہ فیصلہ ہے۔

جرمنی میں کلیسائی امدادی ادارے ڈیاکونی کی ایک شاخ شہر ڈسلڈورف میں بھی قائم ہے۔ اس کے ایماء پر شروع کردہ ایک ماڈل پروجیکٹ میں مریضوں کی دیکھ بھال کے ایسے ادارے کام کر رہے ہیں، جن کا ماحول بالکل کسی بھی گھر کے ماحول جیسا ہوتا ہے۔ یہ سہولت کسی بھی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر مہیا کی جاتی ہے جس میں باتھ روم وغیرہ بھی ہوتا ہے جو مریض کے استعمال میں رہتا ہے جبکہ میزبان خاندان کی رہائش ہمیشہ اوپر والی منزل میں ہوتی ہے۔ یہ عمارت کسی سرسبز کھیت سے متصل ہوتی ہے۔ باہر نکلتے ہی فضا میں جانوروں کی بوُ محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہیل چیئر کی مدد سے مریض صحن میں آئے تو اُسے گھاس کا میدان نظر آتا ہے اور ارد گرد بطخیں، کُتے، بلیاں، مرغیاں اور گھوڑے آزادی سے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل عام طور پر ایک فارم ہاؤس کے بیچوں بیچ بنی ہوئی عمارت ہوتی ہے۔ اس فارم ہاؤس میں مریضوں کو طویل مدت سے لے کر ایک دو ہفتوں کے لیے بھی رکھا جا سکتا ہے۔

Medica 2013 Vernetztes Pflegebett
یہ سہولت کسی بھی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر مہیا کی جاتی ہےتصویر: Messe Duesseldorf/ctillmann

تربیت اور کوالٹی کنٹرول

ڈمنشیا کے مریضوں کی 24 گھنٹے دیکھ بھال کوئی سہل کام نہیں۔ ڈیاکونی کے رابطہ کار کلاؤس نیل ایسے مریضوں کے لیے دیکھ بھال کے ان خصوصی مراکز میں کام کرنے والوں کی تربیت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ ان مراکز میں کام کرنے والوں کو دو ہفتے کی بھرپور تربیت دی جاتی ہے، جس میں اس بیماری سے متعلق طبی معلومات سے زیادہ اس امر کی تربیت دی جاتی ہے کہ مخبوط الحواس مریض کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھا جانا چاہیے۔ سماجی تربیتی امور کی ایک ماہر یُولیا رِشارٹس کہتی ہیں، ’’ضرورت اس امر کی نہیں کہ بیماری سے متعلق حقائق اور تفصیلات بتائی جائیں بلکہ ڈمنشیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں ان مریضوں کی بدلی ہوئی کیفیت اور شخصیت کی تفہیم پیدا کرنا سب سے زیادہ ضروری عمل ہے۔‘‘

Deutschland Behinderter kümmert sich um Demenzkranke
اسّی کے عشرے سے جسمانی بیماری یا معذوری کے شکار افراد اس طرح کے مراکز میں بھرتی کیے جاتے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

تربیت حاصل کرنے والوں کی کارکردگی کا باقاعدہ طور پر جائزہ ایک سائنسی پروجیکٹ کے تحت لیا جاتا ہے جو ’وِٹن ہرڈیکے پرائیویٹ یونیورسٹی‘ کے زیر اہتمام چل رہا ہے۔ ڈمنشیا کے مریضوں کی دیکھ بھال کے اس انوکھے مرکز کا تصور کوئی نیا نہیں۔ اسّی کے عشرے سے جسمانی بیماری یا معذوری کے شکار افراد اس طرح کے مراکز میں بھرتی کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم ڈمنشیا کے مریضوں کے گھر والے کس حد تک اس پروجیکٹ پر اعتبار کرتے ہوئے اس سے استفادہ کریں گے، یہ سوال اہم ہے۔ فی الوقت دو جرمن صوبوں میں اس کا تجربہ کیا گیا ہے۔ ایک باڈن وُرٹمبرگ میں اور دوسرا باویریا میں۔ جرمنی کی الزائمر ایسوسی ایشن کے ایک اہلکار ہانس یورگن فریٹر اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کے بقول، ’’چند لوگوں کے لیے تو یہ نظریہ اچھا ثابت ہو سکتا ہے تاہم میرے خیال سے مستقبل میں یہ ڈمنشیا کے مریضوں کی بڑی تعداد کے مسائل کا حل ثابت نہیں ہوگا۔‘‘

l