ڈرون حملے دوبارہ شروع کرنے سے قبل پاکستان کو آگاہ کیا تھا، امریکی حکام
23 فروری 2012خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان اعلٰی امریکی عہدیداروں میں نائب صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ امریکی فوج کے سربراہ مارٹن ڈیمپسی نے بھی اسی وقت اپنے پاکستانی ہم منصب جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ٹیلی فون پر بات کی تھی۔
گزشتہ برس 26 نومبر کو ایک پاکستانی سرحدی چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے کے نتیجے میں چوبیس پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں کافی احتجاج ہوا تھا۔ پاکستان نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لیے اپنے ملک سے گزرنے والی نیٹو کی سپلائی لائن بھی روک دی تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ سے بلوچستان میں واقع شمسی ایئر بیس بھی خالی کروا لی گئی تھی جسے ڈرون حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
پاکستانی حکومت کے ان اقدامات سے اوباما انتظامیہ کی پاکستان کے ساتھ ایک بار پھر کشیدگی کا خطرہ پیدا ہو گیا کیونکہ امریکہ متنازعہ ڈرون حملوں کے پروگرام کو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کو کچلنے کے لیے جزو لاینفک تصور کرتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق عوامی سطح پر امریکی میزائل حملوں کو پاکستانی سیاستدان کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اسے ملک کی خود مختاری پر حملہ بھی قرار دیتے ہیں۔ تاہم نجی ملاقاتوں میں پاکستانی رہنما کافی عرصے سے ان حملوں کی حمایت اور حتٰی کہ حوصلہ افزائی بھی کرتے آ رہے ہیں بشرطیکہ ان میں بعض علاقوں اور اہداف پر حملے نہ کیے جائیں۔
امریکی انتظامیہ کے سابق اور موجودہ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اوباما انتظامیہ کو جب بھی قائل کرنے والی انٹیلی جنس معلومات اور اہداف کا پتا چلے گا تو وہ فضائی حملے کرنے سے نہیں چوکے گی۔
تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال پاکستان کو ڈرون حملوں سے متعلق پیشگی اطلاع نہیں دیں گے کیونکہ دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکام کو پیشگی اطلاع دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ معلومات عسکریت پسندوں تک پہنچ گئیں جو کسی بھی مجوزہ حملے سے قبل ہی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
دو ہزار چودہ میں افغانستان سے امریکی فورسز کے مجوزہ انخلاء سے قبل وہاں فوجی کامیابیاں دکھانے کے لیے بھی امریکہ پر کافی زیادہ دباؤ ہے۔
ادھر ڈرون حملوں نے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دی ہے اور اسلام آباد کی کمزور سویلین حکومت اور فوج پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی فوج کو پہلی بار غیر معمولی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
تاہم امریکی حکام نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ مستقبل قریب میں ڈرون حملے کم کیے جائیں گے جس کی ایک وجہ تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں موجودہ کشیدگی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمسایہ ملک افغانستان سے انہیں اڑانے میں بعض تکنیکی مسائل درپیش ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر ان کشیدہ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے جمعرات کو لندن میں اپنی امریکی ہم منصب ہلیری کلنٹن سے ملاقات کریں گی تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی پارلیمان ’تعلقات کی بحالی کی شرائط‘ کا جائزہ لینا چاہے گی۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد