1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ڈاکٹر کفیل خان کو جیل سے فوراً رہا کرنے کا حکم

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
1 ستمبر 2020

بھارت کی ایک عدالت نے ڈاکٹر کفیل خان کو جیل سے فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے جنہیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرنے پر سخت ترین قانون کے تحت گرفتار کیا گيا تھا۔

https://p.dw.com/p/3hqjr
Lucknow  Kafeel Khan
تصویر: IANS

بھارتی ریاست اترپردیش کی الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر کفیل خان کو حراست میں رکھنے کے حکومتی فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منگل یکم ستمبر کو انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈاکٹر کفیل نے اپنی تقریر کے دوران نفرت پھیلانے یا پھر تشدد بھڑکانے جیسی کوئی بات نہیں کہی تھی جس کا حکومت دعوی کر رہی ہے۔

ڈاکٹر کفیل خان نے گزشتہ برس دسمبر میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہونے والے ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کیا تھا جس کے بعد یو پی کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کی بات کہی تھی۔ جنوری میں ان کوگرفتار کیا گیا تاہم عدالت نے جب انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تو ان کی گرفتاری کے تقریباً 45 روز بعد یو گی ادیتہ ناتھ حکومت نے ان پر نفرت پھیلانے اور تشدد بھڑکانے جیسے الزامات عائد کرتے ہوئے سخت ترین قانون 'نیشنل سکیورٹی ایکٹ' (این ایس اے) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ اس قانون کے تحت ملزم کو مقدمہ دائر کیے بغیر ہی مہینوں جیل میں رکھا جا سکتا ہے اسی لیے وہ تب سے متھرا کی جیل میں قید ہیں۔

کفیل خان کی گرفتاری کے خلاف ان کی ماں نزہت پروین نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کی سماعت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کی اور اپنے فیصلے میں حکومت کے تمام الزامات کو بے بنیاد بتایا۔ عدالت نے کہا کہ حکومت نے کفیل خان کی تقریرکے بعض اقتباسات کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ ان کی تقریر سے نفرت اور تشدد بھڑک سکتا تھا جبکہ اگر ان کی مکمل تقریرکو سیاق و سباق کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ امن و امان کی بات کر رہے ہیں۔

عدالت نے کہا، ''وہ عوام سے آپسی بھائی چارہ ببرقرار رکھنے اور اتحاد کی بات کر رہے ہیں۔ وہ اپنے خطاب میں ملک کی سالمیت اور یکجہتی پر زور دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ علی گڑھ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ان کی ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پسند کے جملوں کا انتخاب کیا تاکہ ان پر این ایس اے جیسے سخت قانون کو نافذ کیا جا سکے۔''  عدالت نے کہا کہ ان کی گرفتاری غیر قانونی ہے اور انہیں فوری طور پر جیل سے رہا کیا جائے۔

’مودی کی حکومت ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں‘

ادھر دہلی ہائی کورٹ نے بھی حقوق انسانی کے لیے سرگرم تنظیم 'پنجڑا توڑ' گروپ سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ دیونگانا کالیتاکو شمالی دہلی میں تشدد پھیلانے کے ایک کیس میں ضمانت د ے دی ہے۔ کالیتا بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش تھیں۔ لیکن چونکہ پولیس نے ان پر دہلی میں فسادات برپا کرنے کی سازش کا الزام عائد کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت بھی کیس درج کر رکھا ہے اس لیے وہ ابھی جیل سے باہر نہیں آپائیں گی۔اس کیس میں دہلی کی  ایک نچلی عدالت نے ان کی ضمانت کی عرضی خارج کر دی تھی۔

مودی حکومت نے گزشتہ برس شہریت سے متعلق جو نیا قانون منظور کیا تھا اس کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع  ہوئے اور حکومت نے اس پر قابو پانے کے لیے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا۔ اس معاملے میں ریاست اترپردیش کی یوگی حکومت سر فہرست ہے جس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کازبردست استعمال کیا اور گیارہ سو سے زائد افراد کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ ان میں سے بیشتر افراد اب بھی بغیر کسی قانونی کارروائی کے جیلوں میں بند ہیں۔

سرکردہ وکیل محمود پراچہ شہریت ترمیمی قانون سے متعلق متعدد مقدمات سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ کہتے کہ عدالت نے اسی بات پر مہر لگا دی ہے جو پہلے ہی سے کہی جا رہی تھی اور یہ اس لیے ہوا کیونکہ سیاسی رہنما اپنے مفاد کے لیے پولیس اور دیگر افسران کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ ''اب غلط طریقے سے سخت قوانین میں پھنسانے کے لیے ایسے پولیس اور دیگر افسران  کے خلاف مقدمہ درج کیا جا نا چاہیے۔''

ایک سوال کے جواب میں محمود پراچہ نے کہا کہ یہ آر ایس ایس کی حکومت ہے جو ملک کے، ''موجودہ آئین کا نہیں بلکہ منوادی نظام کا نفاذ چاہتی ہے جو منوسمرتی کے ذات پات پر مبنی برہمنی نظام کو فوقیت دیتا ہے۔'' انہوں نے کہا کہ گرچہ عدالت نے حکومت کے اس قدم کو غیر قانونی بتایا ہے تاہم یہ سیاسی رہنما مستقبل میں بھی ایسے ہی اقدامات کرتے رہیں گے۔

محمود پراچہ کا کہنا تھا کہ شہریت اور این آر سی جیسے ایشو پر گرچہ بی جے پی مسلمانوں کو مہرا بنا کر کام کر رہی ہے تاہم اس کامقصد کچھ اور ہے۔ ''اصل میں یہ سب نظر ایسا آتا ہے جیسے سب مسلمانوں کے خلاف ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے نچلی ذات کے لوگ زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ آسام اس کی تازہ مثال ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بنا کر وہ دیگر افراد کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔'' انہوں نے کہا کہ یو پی اور اترا کھنڈ جیسی ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکوت ہے وہاں تو کئی صحافیوں کو بھی ایسے سخت قوانین کے تحت گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔

’مودی حکومت خاموش کرائے گی تو دیواریں بھی بولیں گی‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں