1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

چینی صدر کی یوکرینی ہم منصب سے فون پر پہلی بات چیت

27 اپریل 2023

چین کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کے لیے اپنا ایک خصوصی نمائندہ بھیجے گا اور موجودہ بحران سے متعلق تمام فریقین سے بات چیت ہو گی۔ صدر زیلنسکی نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو 'طویل اور بامعنی' قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Qbf9
Bildkombo Selenskyj und Xi Jinping
تصویر: Ukrainian Presidentia/IMAGO/MONCLOA PALACE/REUTERS

چین کے صدر شی جن پنگ نے 26 اپریل بدھ کے روز اپنے یوکرینی ہم منصب وولودیمیر زیلنسکی سے فون پر بات چیت کی اور کہا کہ چین ''ہمیشہ امن کے ساتھ کھڑا ہے۔'' یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے دونوں رہنماؤں میں یہ پہلی بات چیت تھی۔ 

امریکہ اور مغرب اقوام متحدہ کے نظام میں بحران کے ذمہ دار، روس

چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے صدر شی جن پنگ کے حوالے سے کہا کہ ''یوکرین کے بحران کے معاملے میں، چین ہمیشہ امن کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اس کا بنیادی موقف امن مذاکرات کو فروغ دینا ہے۔''

سوئٹزرلینڈ کی طرف سے یوکرین کو ہتھیار نہ فراہم کرنے کا دفاع

چینی رہنما کا کہنا تھا کہ زیلنسکی کے ساتھ ان کی بات چیت اس امر کا مظہر ہے کہ بین الاقوامی امور پر چین کی پوزیشن ''غیر جانبدارانہ'' اور ''مفاد'' سے بالاترہے۔ چین کے صدر نے کہا کہ بیجنگ اپنا ایک خصوصی نمائندہ یوکرین بھیجے گا اور اس تنازعے پر تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔

عالمی دفاعی اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ، رپورٹ

واضح رہے کہ چین نے گزشتہ فروری میں یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے 12 نکات پر مبنی ایک دستاویز شائع کیا تھا۔ بیجنگ خود کو یوکرین بحران کے لیے ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر پیش کرتا رہا ہے، جبکہ ماسکو کے ساتھ وہ اپنی ''لا محدود'' دوستی برقرار رکھنے کی پالیسی پر بھی گامزن ہے۔

روسی فضائیہ نے ’غلطی‘ سے اپنے ہی شہر پر بم گرا دیا

شی جن پنگ نے فون کال کے دوران کہا کہ چین ''نہ تو دوسری جانب سے پھیلتی ہوئی آگ کو دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام کرے گا اور اس بحران سے فائدہ اٹھانے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔'' انہوں نے صدر زیلنسکی کو بتایا کہ مذاکرات ہی تنازعات سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔

Ukraine Präsident Wolodymyr Selenskyj
فون پر بات چیت کے بعد صدر زیلنسکی نے چین کے لیے اپنے نئے سمیر کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ میں یوکرین کے نئے سفیر پاویل ریابکین ہوں گےتصویر: president.gov.ua

یوکرین کا رد عمل

یوکرین کے صدر زیلنسکی نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی اس بات چیت کو ''طویل اور بامعنی'' قرار دیا۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ''مجھے یقین ہے کہ اس فون کال کے ساتھ ہی، چین میں یوکرین کے سفیر کی تقرری ہوگی، جو ہمارے دو طرفہ تعلقات کی پیش رفت کو ایک طاقتور تحریک مہیا کرے گی۔''

فون پر بات چیت کے بعد صدر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ چین میں یوکرین کے نئے سفیر پاویل ریابکین ہوں گے۔ بیجنگ کے لیے نئے مقرر کردہ سفیر اس سے قبل یوکرین کی اسٹریٹیجک صنعتوں کی وزارت کو سنبھال رہے تھے۔

واضح رہے کہ فروری 2021 سے چین میں یوکرین کا کوئی بھی سفیر نہیں ہے۔

دیگر مغربی ممالک کا رد عمل

اس دوران وائٹ ہاؤس نے چینی صدر شی جن پنگ اور زیلنسکی کے درمیان فون کال کا خیرمقدم کیا، تاہم یہ بھی کہا کہ یہ کہنا ابھی جلد بازی ہو گی کہ آیا یہ بات چیت روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

فرانس نے بھی کہا کہ وہ اس طرح کی ''تمام گفت و شنید کی حوصلہ افزائی کرتا ہے'' جو ''تنازعے کے حل میں کوئی کردار ادا کر سکے'' اور جو ''کییف کے بنیادی مفادات'' اور بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی ہو۔

جرمن حکومت نے اپنے رد عمل میں کہا کہ زیلنسکی اور شی جن پنگ کے درمیان فون کال ''ایک اچھا عندیہ ہے۔'' حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے چین پر، ''یوکرین کے خلاف روسی جارحیت پر مبنی غیر قانونی جنگ کو ختم کرنے کی خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔''

برسلز نے بھی اس گفتگو کا خیر مقدم کیا ہے۔ یورپی یونین کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا، ''یہ اچھی بات ہے کہ بالآخر صدر زیلنسکی اور صدر شی جن پنگ کے درمیان بات چیت ہوئی اور مواصلاتی چینلز کھلے ہیں۔''

روس نے ناروے کے سفارت کاروں کو نکال دیا

ناروے کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ماسکو نے اس کے کم از کم دس سفارت کاروں کو روس چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اوسلو نے کہا کہ ناروے کی حکومت کی جانب سے اس ماہ کے اوائل میں جاسوسی کے الزام میں 15 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کے جواب میں یہ اقدام ایک ''انتقامی کارروائی'' ہے۔

ماسکو میں ناروے کے سفیر کو بتایا گیا کہ ماسکو میں اس کے سفارت خانے کے 10 سفارت کاروں کو ''روس میں ناپسندیدہ شخصیت" قرار دے دیا گیا ہے۔

روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ سفیر کو طلب کر کے اوسلو کی طرف سے روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے پر احتجاج بھی کیا گیا۔ وزارت نے مزید کہا کہ ''اوسلو کے غیر دوستانہ اقدامات'' کے جواب میں دوسرے اقدامات بھی کیے جائیں گے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

امریکی خفیہ دستاویزات لیک، معاملہ کیا ہے؟