1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین:ایغور مسلمانوں کے خلاف ’ظلم کا نیا الگورتھم‘

2 مئی 2019

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق حکام نے ایسے اعدادو شمار اکھٹے کرنا شروع کیے ہیں، جن کا تعلق چین میں ایغور مسلمانوں سے تفتیش کے دوران روا رکھنے جانے والے قانونی رویوں سے ہے۔

https://p.dw.com/p/3HnIs
China Uiguren in Xinjiang
تصویر: picture-alliance/epa/H. H. Young

ہیومن رائٹس واچ ( ایچ آر ڈبلیو) کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق چینی علاقے سنکیانگ کی پولیس ایغور مسلمانوں کی نگرانی کے لیے ایک ایپ استعمال کر رہی ہے۔ آج جمعرات کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ایپ کسی بھی شخص کے ’قانونی رویے‘ کو مشکوک قرار دے دیتی ہے اور اس طرح حکام اسے آسانی سے گرفتار کر سکتے ہیں۔

چین میں ایچ آر ڈبلیو کی محققہ مایا ونگ نے بتایا،’’ ہماری تفتیش سے پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ سنکیانگ کی پولیس لوگوں کے قانونی طرز زندگی کے بارے میں غیر قانونی طریقے سے معلومات اکھٹی کر رہی ہے اور اسے ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘

China Ethnie der Uiguren
تصویر: picture-alliance/Kyodo

انہوں نے مزید بتایا کہ چینی حکومت سنکیانگ میں رہنے والوں کی زندگی کے ہر پہلو کی نگرانی کر رہی ہے،’’جن پر معمولی سا بھی شبہ ہو ان کی اضافی نگرانی شروع کر دی جاتی ہے۔‘‘

ایچ آر ڈبلیواس سے قبل بھی بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام ( Integrated Joint Operations Platform ) ’IJOP‘ کے بارے میں لکھتا رہا ہے۔ اس نظام کے ذریعے شہریوں کے چہروں کے تاثرات، سمارٹ فون کی جیو لوکیشن، بینک ریکارڈز اور گھر کی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے آبادی کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

 

انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ چین میں تقریباً ایک ملین یا دس لاکھ ایغور اور دیگر مسلمانوں کو جبری طور پر کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’ظلم کے اس نئے الگورتھم‘ کو خاص طور پر ایغور اقلیت کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کے مطابق اس الیکٹرانک نگرانی کے ساتھ ساتھ بہت سے ایغوروں کو ایک مبصر کو اپنے گھروں میں رکھنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکام نے 12 سے 65 سال کی درمیانی عمر کے ایغوروں کے ڈی این اے، انگلیوں کے نشانات،آنکھوں کی پتلیوں کے اسکین اور خون کے نمونے بھی جمع کر لیے ہیں۔